معزز قارئین! آج 5 مئی ہے اور قبل ازیں 4 مئی کو پاکستان اور ہندوستان کے کئی علاقوں کے علاوہ بیرون پاکستان فرزندان و دُخترانِ پاکستان متحدہ ہندوستان میں بھی انگریز حکمرانوں کے خلاف تحریک آزادی کے پہلے ہیرو ”شیر میسور سُلطان فتح علی خان ٹیپو شہید کا 224 واں یوم شہادت منایا گیا۔ قبل ازیں 4 مئی 1999ءکو ”ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان “ لاہور میں ”مفسرِ نظریہ¿ پاکستان“ جناب مجید نظامی کی صدارت میں سُلطان ٹیپو شہید کا 2 سو سالہ جشن شہادت منایا گیا۔ ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے سیکرٹری برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید (اب مرحوم) کی دعوت پر مَیں اُس تقریب میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے لاہور آیا تھا۔
تقریب میں خانوادہ¿ سُلطان ٹیپو شہیدکے پاک فوج کے ریٹائر میجر جناب محمد ابراہیم کی کتاب منظر عام پر آئی جس کے ایک صفحے پر لکھا تھا کہ "Srirangapatna" میں سلطان شہید کے مزار پر یہ شعر کُندہ ہے کہ....
”بہر تسخیرِ جہاں شُد، فتحِ حیدر آشکار!
لا فتیٰ اِلاّ علیؓ ، لا سَیفَ اِلاّ ذُوالفقار!“
....O....
یعنی ”دُنیا کی فتح کے لئے فتحِ حیدر کا ظہور ہُوا۔ حضرت علی ؓ سے بہتر کوئی مرد نہیں اور نہ ہی اُن کی تلوار ذُوالفقار سے بہتر کوئی تلوار ہے“۔ ذُوالفقار۔ اُس تلوار کا نام ہے جو پیغمبرِ اِنقلاب کو غزوہ¿ بدر میں مالِ غنیمت میں مِلی تھی۔ پھر آنحضرت نے ذُوالفقار۔ حضرت علی ؓ کو عطا کردی اور وہ ”ذوالفقار ِ علیؓ “ کہلائی۔ حضرت سُلطان ٹیپو شہید کے کارہائے نمایاں پر کئی کتابیں لکھی گئیں۔
”سلطنت خُداد دادِ میسور“ کے عنوان سے 1934ءمیں شائع ہونے والی جنابِ محمود بنگلوری کی کتاب بہت معروف ہے۔ اُنہوں نے لکھا کہ ”حضرت سلطان شہید مذہبی شعائر کے سختی سے پابند تھے۔ سُلطان شہید کے دَور میں ماہِ رمضان کا بہت احترام ہوتا تھا۔ اُنہو ں نے پِیروں، گدّی نشِینوں اور مجاوروں پر اپنے مُریدوں سے نذرو نیاز لینے پر پابندی لگا دی تھی اور اپنے دربار میں آنے والوں کو اپنے سامنے سر جھکانے سے منع کِیا تھا۔ سُلطان شہید۔ اسلامی علوم کے فاضل تھے۔ اُنہیں عربی، فارسی، اردو، تامل، کنٹری ، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر عبور تھا“۔
سلطان ٹیپو شہید نے انگریزوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ اُن کے مسلمان وُزراءمِیر صادق، مِیر غُلام علی، مِیر قاسم علی، قمر الدّین خان اور ہندو دیوان پُورنیا۔ انگریزوں کے ایجنٹ بن گئے تھے۔
سُلطان شہید نے انگریزی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے فرانسیسی فوجی افسروں کی خدمات حاصل کِیں اور اپنی ایک لاکھ فوج کو یورپی فوج کی طرز پر منظم کِیا۔ وہ شہادت تک لڑتے رہے۔ اُن کا یہ مقولہ مقبول عام ہے کہ ”شیرِ کی ایک دِن کی زندگی، گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے“ ۔
” فتح اُلمجاہدین ! “
موجودہ چیئرمین پیمرا، پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ مئی 2018ءمیں پرنسپل انفارمیشن آفیسر (P.I.O) تھے، جب اُنہوں نے مجھے سُلطان ٹیپو شہید کی فارسی زبان میں لکھی ہُوئی کتاب ”فتح اُلمجاہدین“ تحفے میں دِی تھی۔ وہ کتاب ”فوجی قواعد و ضوابط“ سے متعلق تھی۔ افسوس کہ وہ کتاب کہیں اِدھر اُدھر گئی، لیکن وہ پاکستان کی کسی لائبریری میں ضرور ہوگی؟ معزز قارئین! مَیں نے کئی بار لکھا کہ ”کیا ہی اچھا ہوتا کہ ”ہمارے آرمی چیف ”سلطنت خُدادادِ میسور“ کے فوجی قواعد و ضوابط سے سلطنت خُدادادِ پاکستان کو کچھ مستفید کرتے؟“۔
”سابق وزیراعظم پاکستان ! “
28 فروری 2019ءکو پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہُوا کہ ”جب (اُن دِنوں) سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہُوئے، نئے سرے سے بھارت اور اقوام عالم کو باغیرت پاکستانی قوم سے متعارف کراتے ہُوئے کہا تھا کہ ”موت کے بجائے غلامی“ کو منتخب کرنے والے ہندوستان کے آخری مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بجائے شیر میسور سُلطًان فتح علی خان ٹیپو شہید ہمارے ہیرو ہیں جنہوں نے غلامی کو نہیں چُنا بلکہ وہ انگریزوں سے لڑتے ہُوئے شہید ہوگئے تھے“۔ معزز قارئین! اِس پر مَیں نے 4 مارچ 2019ءکے اپنے کالم میں ”ٹیپو سُلطان شہید۔ پاکستان کے ہیرو!“ کے عنوان سے اپنے کالم میں ” پوری قوم کو مبارک باد دی تھی۔
” عطائے گولڈ میڈل !“
26 اپریل 2019ءکو ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور میں ”تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ اور ” نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے مشترکہ اجلاس میں صدر عارف اُلرحمن علوی مہمان خصوصی تھے، جب اُنہوں نے کہا کہ ”میرے والد صاحب ڈاکٹر حبیب اُلرحمن علوی "U.P" ( اُتر پردیش ) مسلم لیگ کے صدر تھے ، تو ” تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ“ کے چیئرمین میاں محبوب احمد صاحب نے ڈاکٹر حبیب اُلرحمن صاحب کو ”گولڈ میڈل“ سے نوازا۔
” نشانِ حیدر ! “
29 اپریل 2019ءکو میرے کالم کا عنوان تھا۔ ” ہمارے ہیرو ، ٹیپو سُلطان شہیدکے لئے نشانِ حیدر !“۔ مَیں نے لکھا کہ ”پاک فوج کے غازیوں اور شہیدوں کا سب سے بڑا اعزاز ”نشانِ حیدر“ حضرت علی مرتضیٰ ؓ کے صفاتی نام حیدر پر ہے۔ کیوں نہ اولادِ مولا علی ؓ (صدر پاکستان )، 4 مئی 2019ءسے پہلے (پاکستان کے ہیرو) حضرت ٹیپو سُلطان شہید کے 220 ویں یوم شہادت پر اُن کی خدمت میں نشانِ حیدر پیش کِیا جائے؟ “۔
”حکومت / پارلیمنٹ / غائب ؟“
پھر کیا ہُوا ؟۔ کچھ بھی نہیں ہُوا؟ تو 6 مئی 2019ءکو میرے کالم کا عنوان تھا۔ ”یوم شہادت ٹیپو سُلطان“۔ حکومت / پارلیمنٹ سے غائب؟“۔ مَیں نے لکھا کہ ”مَیں تو ایک گنہگار اِنسان ہُوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ”اگر مولا علی مرتضیٰ ؓ کے محبوب حضرت ٹیپو سُلطان شہید سے وفا نہ کرنے والے لوگوں کو کچھ ہوگیا تو کیا ہوگا؟“۔
”ازنگاہِ خواجہ¿ بدر و حُنین!“
اب صورت یہ ہے کہ ” 4 مئی پاکستان، بھارت اور دُنیا کے کسی نہ کسی ملک میں حضر ت ٹیپو سُلطان شہید کے چاہنے والے ، اُنہیں ضرور یاد کریں گے۔ شیر میسور حضرت سُلطان ٹیپو شہید سے متعلق بھی علاّمہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ....
”آں شہیدانِ محبت را، اِمام!
آبرُوئے ہِند و چِیں و روم و شام!
ازنگاہِ خواجہ¿ بدر و حُنین!
فَقرِ سُلطاں ، وارثِ جذبِ حُسین ؓ!“
....O....
یعنی ”وہ (حضرت ٹیپو سُلطان شہید) محبت کے شہیدوں کے امام ہیں ۔ہندوستان، چین ، روم اور شام کی آبرو ہیں۔ سرکارِ دو عالم کی نگاہِ فیض سے اُن میں سُلطان کا ” فقر “ اور جذب ِ امام حُسین ؓ ہے! “ ۔
” ٹیپو سُلطان شہید۔ پاکستان کے ہیرو!“
May 05, 2023