روحانی شخصیت،  قدوس اختر نوشاہی کی یاد یں

 چراغ … صبا کمال
 sabakamal555@gmail.com
شفیق سی بھولی بھالی نظریں اور اس پرسفید جھرنے سی مسکراہٹ، باتوں میں ملائم خاموشی اور انوکھا دھیما نازک سا انداز بیان،  بہت انجانا سا تھا یہ پرخلوص رویہ میرے لیے، جیسے کہ سبھی جانتے ہیں مجھے باتیں کرنے  ،ڈائیلاگ اور اونچی آواز میں گفتگو کو انجام دینے کا  جنون سا رہتا ہے ، میری یہی ملنساری انکل جی کا بھا گئی۔پھریوں ہوا کہ میں ایک فرشتہ صفت روح ، متوازن اور منافقت سے پاک ، سادگی میں بے مثال متاثر کن شخصیت سید قدوس اختر سے ملی۔ سید قدوس اختر نوشاہی ہمارے کالج  دوست کے محترم والد گرامی ہیں،کہنے کو ایک عام  سادہ زندگی گزارنے والے  انسان ہیں،لیکن بلا کی ذہانت اورتخلیقی صلاحیتوں میں ان کا ہاتھ پکڑنا جیسے نا ممکن تھا، بجلی کی چیزوں سے پرانا یارانا ہو ، یوں منٹوں میں بنی بنائی اشیا کو کھول کر کچھ نیا بنا لینا ، انکل جی سے الیکٹرانک کی چیزوں کا بچ نکلنا تو ناممکن سی بات تھی،بات دنیا کی ہو یا دین کی انکل جی نے اپنے اخلاق وکردار سے لوگوں میںمذہب اسلام کی اہمیت اجاگر کی،اللہ پاک  سے محبت سکھائی ،اللہ جان سے ان کا  ایک الگ ہی کنکشن رہا، اس خاص لگاو کی بڑی مثالیں یاد ہیں مجھے،  ان کے ہمت و حوصلے سے بھر پور کرداراور اخلاقیات نے مجھے مسحور کر دیا۔ آج سے ۲۰، ۲۱ سال پہلے کی بات ہے ،میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہوا کرتی تھی کالج نیا نیا شروع ہوا تو مشکل سے ایک بھولی بھالی لڑکی کو دوست بنایا کیا پتہ تھا کہ ایک دن اسی دوست سے بہنوں والا مضبوط رشتہ قائم ہو جائے گا،سہیلی نے اپنے گھر آنے کی دعوت دی اور پہلی بار میں اپنی دوست کے گھر گئی جہاں اس کے ہر رشتہ دار نے مجھے گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہا اور ان میں سر فہرست نام تھا انکل جی سید قدوس اختر نوشاہی صاحب کا۔ انکل سے بات کر کے ایسا لگا  تھاجیسے کسی فرشتے نے ڈوبتی کشتی کو سہارا دے دیا ہو۔ رہنمائی کا وسیع سمندر تھے انکل جی، کسی بھی بات یا بحث کو انجام دئیے بغیر ختم نہیں کرتے تھے،  مجھے یاد ہے ایک بار انکل جی کے گھر میں اپنی دوست کے ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں گئی ہو ئی تھی ، پراجیکٹ بنانے کے مشکل طریقے سوچ سوچ کر بہت تھک گئی تھی اور میرے منہ سے نکل گیا ہائے اللہ  یہ تو بہت مشکل ہے کیسے بنے گا، اسی اثنا ، انکل جی کمرے میں آئے اور کہنے لگے کہ ایک بار کام شروع ہو جائے توآسان ہو جاتا ہے،مشکل تو صرف شروع کرنا ہوتا ہے آپ شروع کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں، انکل جی مجھے کبھی بھوکا یا پیاسا نہیں دیکھ سکتے تھے انہیں بہت شوق تھا کہ صبا کو برگر، رول کولڈرنکس یا آئس کریم کھلائیں ،میرے منع کرنے کے باوجود زبردستی لے آتے تھے۔یوں انہیں میرے ہاتھ کی چائے ، خاص کر مصالحہ چائے بڑی بھاتی تھی، وہ کہتے تھے صبا کے ہاتھ کی چائے پینی ہے جب بھی وہ آئے گی اسی کے ہاتھ سے چائے پئیں گے،انکل جی ہمیشہ گھر میں کہتے تھے،صبا کھانا مذیدار بناتی ہے ،مجھے یہ سن کے اتنا اچھا لگتا تھاکہایک دن میں انکل جی کے لئیے کھانا بنانے کھڑی ہو گئی یونہی دل میں آیا کہ کیوں نا انکل جی کے لئیے پودینے کی چٹنی بنا دوں، انکل جی کی سادگی بھی بے حساب تھی ، مرغی کا قورمہ ایک طرف انہوں نے پوری روٹی اس چٹنی کے ساتھ کھا لی،اور کہنے لگے آپ کھانا نا بناتیں صرف چٹنی بنا دیتیں تو بھی میں پیٹ بھر کر کھا لیتا،انکل جی ہمیشہ سب سے کہتے تھے کہ صبا بہت اچھی لڑکی ہے کیونکہ وہ باتیں دل میں نہیں رکھتی ، حالانکہ سچ تو یہ ہے کہ انکل جی خود دل کے بہت صاف انسان تھے، میں نے اپنی سہیلی کے ساتھ اس بیس سالہ دوستی میں انکل جی کا کوئی ایک واقعہ جھگڑے ، لڑائی ، نفرت اورمنافقت سے  جڑا نہیں دیکھا۔انکل جی نے ہمیشہ دین کی تعلیم پر محنت کی اور بچوں کو دنیا کے ساتھ ساتھ دینوی تعلیم بھی دلوائی، مجھے یاد ہے ایک بار ہمارے فرسٹ ائیر کے پیپرز ہو رہے تھے ، میری سہیلی نے کہا ، کل ابو جی بہت غصے میں تھے تو مجھ سے پڑھا نہیں گیا، میں نے پوچھا کہ آپ کے ابو جی کو تو غصہ چھو کر بھی نہیں جاتا ، پھر کیا ہوا تو سہیلی نے بتایا کہ بھائی نے نماز پڑھنے کی جگہ امتحان کی تیاری کی کتاب اٹھا رکھی تھی ابو جی نے ایک دو بار تو غیر محسوس  طریقے سے نماز کی تاکید کی لیکن جب بھائی نہیں اٹھے تو ابو جی نے کتاب پھینک دی اور کہا کہ اللہ پاک کی عبادت پہلے ضروری ہے،دین کی محبت نے ایسے دین دار نیک سادہ لوح انسان کے نصیب میں بڑی کامیابیاں لکھ دیں اللہ پاک نے ان کی سب سے چھوٹی بیٹی کوانتہائی کم عمری میں کلام الہیٰ حفظ کرنے کا شرف نصیب فرمایا۔انکل جی ، نے ہمیشہ چھوٹوں سے محبت اورصلح رحمی کا رویہ رکھا، جبکہ بڑوں کی حوصلہ افزائی میں ان کا کوئی ثانی نہیں دیکھا، بچوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خود بھرپور طریقے سے شامل ہوتے ، گھر میں کوئی اچھا کام کرتا تو اس کی ہمت بڑھانے اور مثبت رویوں کو پروان چڑھانے کے لئیے انعام و اکرام  سے نوازنے کا رواج پروان چڑھاتے، انکل جی کے انعامات میں بچوں کے لئیے ڈرائی فروٹس ہوتے تھے جبکہ بڑوں کے لئیے کچھ رقم لیکن وہ کچھ رقم ہمارے لئیے دنیا کا سب سے انمول تحفہ ہوتی تھی کیونکہ اس میں انکل جی کی محبت اور شفقت  اور کوئی اچھی بات ہیرے موتی کی طرح جڑی ہوتی تھی،میں جب بھی اپنی سہیلی کے گھر جاتی انکل جی مجھے واپسی گھر چھوڑنے آتے تھے، یہ ان کی عادت کا حصہ تھا،وہ کہتے تھے کہ مجھے چہل قدمی کرنی ہوتی ہے ، صبا کے ساتھ وقت کا پتہ نہیں چلے گا ۔کیونکہ انکل جی کو پتہ تھاکہ میں دنیا جہان کی بناتیں بنانا شروع کر دوں گی اورپھر انہیں بوریت اور تھکان کا احساس تک نہیں ہو گا اور ساتھ ساتھ واک بھی مکمل ہو جائے گی، پھر یوں ہواکہ ایک دن انکل جی کے گھر سے ان کی بہن کے انتقال کی خبر آئی یہ انتقال اچانک ہوا تھا اوربہت غیر معمولی تھا انکل کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی لاڈلی بہن اس جہان سے جا چکی ہیں، وہ اداس رہنے لگے، رفتہ رفتہ بیمار ہوئے اور پھر ایسے بیمار ہوئے کہ بستر پکڑ لیا، میں جب جاتی تو پوری ہمت سے اٹھتے اور مجھے پہچان جاتے ، آج سے کچھ دن پہلے میں ان کے گھر گئی تھی عید کے سلسلے میں،واپسی پر میں نے انکل جی کو سلام کیا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا میں نے کہا ابھی جانے دیں کل پھر آ جاوں گی اور آپ مجھے گھر چھوڑنے جائیں گے پہلے کی طرح،شاید یہ انکل کے ساتھ میری آخری بات اور ملاقات تھی، اگلی صبح بروز اتوار ۹ شوال ۳۰ اپریل میری سہیلی کے گھر سے کال آتی ہے، ابو جی نہیں رہے،دل دھڑام سے ہوگیا، لیکن صبر و استقامت اور ثابت قدم رہی کیونکہ اپنے والدین کھو کے بیٹھی ہوں،انکل جی کا جنازہ ان کے آبائی گاوں ساہن پال گجرات میں پڑھا جانا تھا گھر والے گاوں جانے کی تیاری کر رہے تھے اور انکل جی کے ارد گرد ایک مجمع لگا تھا، وہ لوگ جو ان سے بیر رکھتے تھے انہیں بھی روتے دیکھا میں نے، اور تب سمجھ آیا کہ انسان کی اصل قدر اس کے انتقال کے بعد نظر آتی ہے ،یہی انسان کی اصل حقیقت ہے اور انکل جی کی خوش قسمتی یہ تھی کہ آخری وقت میں ان کی پیاری دلاری لاڈلی حافظہ بیٹی ان کے منہ میں آب زمزم ٹپکاتے ہوئے تلاوت قرآن پاک  میں مشغول تھی ، انکل جی نے دین کا جو ننھا پودا لگایا تھا آج ان کے لئیے سایہ دار پھل دارشجر بن کر موت کی سختی آسان بنا کر جنت کی ٹھنڈی ہوا پہنچا رہا تھا۔، انکل جی کی زبان پر یا سلام کا ورد جاری تھا اور  اسی دوران عین اپنی خاموش طبیعت کی مانند چپکے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اہل مطالعہ سے خصوصی دعا کی اپیل ہے۔
کیپشن
 مرحوم قدوس اختر نوشاہی کی اپنی صاحب زادی کے ساتھ یادگار فوٹو

ای پیپر دی نیشن