ملک اور بیرون ملک دین کے روح رواں علامہ شاہ احمد نورانی مرحوم

May 05, 2023

ملک محبوب الرسول قادری
 علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان ۱۳۴۴ھ/ اپریل ۱۹۲۸ء کو میرٹھ (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلۂ نسب خلیفۂ اول حضرت صدیق اکبر ؓ سے جا ملتا ہے‘ اسی نسبت سے آپ صدیقی کہلاتے تھے۔انہوں نے آٹھ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔ حفظ قرآن کے بعد ثانوی تعلیم کے لئے ایسے سکول میں داخلہ لیا جہاں ذریعہ تعلیم عربی تھا۔ عربک کالج میرٹھ  یو پی سے بھی فارغ التحصیل ہو کردرس نظامی کی  تعلیم مدرسہ اسلامیہ قومیہ میں اُستاذ العلماء علامہ غلام جیلانی میرٹھی سے حاصل کی۔
آپ کی دستار بندی کے موقع پر ایک پُروقار تقریب کا انعقاد ہوا جس میں آپ کے استاذِ محترم مولانا سیدغلام جیلانی میرٹھی‘ آپ کے والد ماجد مولانا شاہ عبد العلیم صدیقی اور صدر الافاضل مولانا سیّد نعیم الدین مراد آبادی کے علاوہ شاہزادہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ مصطفیٰ رضا خان مفتی اعظم ہند بھی مسند افروز تھے۔آپ کوکئی عالمی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ عربی‘ فارسی‘ اردو‘ انگریزی(امریکن اور برٹش لہجہ میں)‘ سواحلی (افریقی)‘ فرانسیسی کے علاوہ بنگالی‘ گجراتی سبھی زبانیں بڑی روانی سے بول سکتے تھے۔علامہ نورانی تحریک پاکستان کے دور میںمیرٹھ میں نوجوانوں کی سطح پر متحرک رہے ۔مسلم لیگ کی حمایت میں ضلع مین پوری (یوپی‘ بھارت) میں سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۱۹۵۲ء میں مرزائیوں کے خلاف کراچی میں آل پاکستان مسلم پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ہوا تو آپ اس بورڈ کے اہم رکن مقرر ہوئے۔تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء میں کراچی میں مولانا عبد الحامد بدایونی ( ۱۳۹۰ھ/ ۱۹۷۰ئ) اور دیگر علماء کے ساتھ تحریک میں شریک ہوئے۔ آرام باغ میں جمعہ کے دن تحریک کا آغاز ہوا تو علامہ نورانی پیش پیش تھے۔۱۹۵۴ء میں علامہ شاہ احمد نورانی نے اپنے والد ماجد علامہ شاہ عبد العلیم صدیقی کے وصال کے بعد ان کے مشن کو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ سرانجام دینے کا عزم کر لیا۔۱۹۵۵ء میں آپ جامعہ ازہر (مصر) کے علماء کی دعوت پر قاہرہ تشریف لے گئے اور علماء کے عظیم اجتماعات سے خطاب کیا۔۱۹۵۸ء میں علامہ نورانی نے حضرت مفتی ضیاء الدین بابا خانوف مفتی اعظم روس کی خصوصی دعوت پر روس کا تبلیغی دورہ کیا اور سوشلسٹ معاشرے کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ ازبکستان‘ تاشقند‘ سمرقند‘ بخارا کے مسلمانوں میں دینی جذبہ پیدا کرنے میں آپ نے اہم کردار ادا کیا۔علامہ نورانی‘ مثنوی مولانا روم اتنے دلکش انداز میں پڑھتے تھے کہ ازبکستان‘ تاجکستان‘ سمرقند‘ بخارا اور دوسرے علاقوں کے مسلمانوں نے بار بار آپ سے مثنوی مولانا روم سنانے کی فرمائش کی۔سمرقند میں آپ نے مصحف عثمانی کے اصل نسخہ کی زیارت کی۔۱۹۵۹ء میں علامہ شاہ احمد نورانی نے مشرق وسطیٰ کا خیر سگالی دور کیا۔1960ء سے 1970تک علامہ شاہ احمد نورانی نے مشرقی افریقہ‘ مڈغاسکر، سیلون (سری لنکا)  نائیجیریا ، شمالی افریقہ ،صومالیہ‘ کینیا‘ ٹانگانیکا‘ یوگنڈا اور ماریشس کے دورے کیے اور تبلیغ  اسلام کے مشن پر مامور رہے  ۔۱۹۶۲ء میں آپ کی شادی مدینہ منورہ میں ہوئی۔اسی دورانیے میں آپ نے ترکی‘ فرانس‘ مغربی جرمنی‘ برطانیہ‘ ‘ نائیجیریا اسکینڈ نیوین ممالک،چائنا امریکہ‘ جنوبی امریکہ کینیڈا ،تنزانیہ‘ یوگنڈا‘ مالاگوسی‘  اور سرینام (ڈچ گیانا‘ جنوبی امریکہ) کا تبلیغی دورہ کیا۔اسی سال سرینام (جنوبی امریکہ) میں بھی سات ماہ قیام کر کے وہاں مناظرے میں مرزائیوں کو شکست فاش دی۔ 
1965میں آپ نے جمعیت تبلیغ الاسلام کی دعوت پر شمالی انگلینڈ اور اس کے علاوہ امریکہ‘ جنوبی امریکہ کاتبلیغی دورہ کیا۔۱۹۶۸ء میں علامہ شاہ احمد نورانی نے ٹرینڈاڈ میں ایک قادیانی (جو کہ اسلامک ریویو لندن (برطانیہ) کا ایڈیٹر تھا) سے ساڑھے پانچ گھنٹے مناظرہ کیا۔ آپ نے صدر پاکستان یحییٰ خاں کو مخاطب کرتے ہوئے صاف کہا تھا کہ تمہارا قادیانی مشیر ایم ایم احمد پاکستان کی معیشت کو تباہ کر رہا ہے جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان ہمارے ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔
آپ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میںکراچی کے حلقہ ۷ سے جمعیت العلمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کے کمیونسٹ سیاسی لیڈر مولانا بھاشانی کی ٹوبہ ٹیک سنگھ (دار السلام) میں کسان کانفرنس کے مقابلہ میں جون ۱۹۷۰ء کو سنی کانفرنس منعقد ہوئی تو آپ اس میں شریک ہوئے۔ستمبر ۱۹۷۱ء میں سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا تقریباً ڈیڑھ ماہ کا تبلیغی دورہ کیا۔۱۵ اپریل ۱۹۷۲ء کو علامہ شاہ احمد نورانی نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں عبوری آئین پر تقریر کرتے ہوئے اسلام و ختم نبوت کے تحفظ کی پہلی آواز بلند کی۔ آپ کی تحریک پر  ۱۷ اپریل کو اسمبلی کے اجلاس میںایک مسلمان کیلئے جو تعریف پیش کی گئی اسمبلی کارروائی کے صفحہ ۳۵۴ پر موجود ہے۔قومی اسمبلی کے اندر علامہ نورانی کی قادیانیت پر یہ پہلی ضرب تھی جس نے بالآخر تحریک کی صورت اختیار کی اور قادیانی اپنے کیفر کردار کو پہنچے۔
مارچ ۱۹۷۳ء میں علامہ نورانی متحدہ جمہوری محاذ کے قیام پر محاذ کی کی رابطہ اور اطلاعات کمیٹی کے چیئرمین منتخب کئے گئے اور پاکستان ک وزارت عظمیٰ کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کا مقابلہ کیا۔۲۰ جون ۱۹۷۴ء کو پاکستان قومی اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف کی طرف سے جو قرارداد مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی خاطر پیش کی گئی اس کا سہرا بھی حضرت علامہ شاہ احمد نورانی کے سر ہے۔ اس قرارداد پر حزب اختلاف کے ۲۲ افراد (جن کی تعداد بعد میں ۳۷ ہو گئی) نے دستخط کئے۔  علامہ نورانی کو قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کاممبر بھی منتخب کیا گیا۔ آپ نے پوری ذمہ داری کے ساتھ دونوں کمیٹیوں کے اجلاس میں شرکت کی۔آپ نے قادیانیت سے متعلقہ ہر قسم کا لٹریچر اسمبلی کے ممبروں میں تقسیم کرنے کے علاوہ ممبروں سے ذاتی رابطہ بھی قائم کیا اور ختم نبوت کے مسئلہ سے انہیں آگاہ کیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو سے قائد حزب اختلاف کی حیثیت سے آپ کا پہلا تعارف ہوا تو مسٹر بھٹو نے کوثر نیازی سے کہا کہ اچھا! یہ مولانا نورانی ہیںجوحکومت کے کاموں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں ؟۲۳مارچ 1977 کولاہور سے آپ کوحراست میں لے لیا گیا گڑھی خیرو (سندھ)  کے گرم ترین علاقہ میں بغیر کسی سہولت قید رکھا گیا۔
اپنی وفات سے ٹھیک 20سال قبل ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) میں آپ نے ۱۱ دسمبر ۱۹۸۳ء کو جامع مسجد طیبہ کا باقاعدہ افتتاح۔ ہیگ (ہالینڈ) میں مدینۃ الاسلام یونیورسٹی کے قیام کے بعد وہاں کے مسلمانوں نے ایک بڑی جامع مسجد کی ضرورت محسوس کی جہاںچار ہزار گز زمین خرید کر جامع مسجد طیبہ کے لئے وقف کر دی گئی۔ اس مسجد میں تقریباً ہزار آدمی بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایران عراق جنگ بندی کے لیے مولانا نورانی نے کلیدی کردار ادا کیااور عراقی صدر صدام حسین سے ملاقات کر کے مصالحتی کوششوں کو بروئے کار لائے ۔جب پاکستان کو فرقہ وارانہ کشیدگی کی آگ میں جھونک دیا گیا تو قائد اہل سنت مولانا شاہ احمد نورانی نے پہلے ملی یکجہتی کونسل اور پھر  جولائی 2001کومتحدہ مجلس عمل قائم کی۔اکتوبر 2002کے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں اور فروری2003ء کے سینٹ کے انتخابات میں ایم ایم اے کو شاندار کامیابی حاصل ہوئی۔یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ تھا ۔
16شوال المکرم 1424ھ کو ساڑھے بارہ بجے دن اسلام آباد میں اسلام کا یہ بے لوث مجاہد داعی حق کے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے واصل حق ہو گیا ۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔علامہ شاہ احمد نورانی ریسرچ سنٹر پاکستان حضرت قائد اہل سنت کے وصال کے بعد ان کے مشن کی ترویج واشاعت کے لیے مصروف عمل ہے جس نے اب تک متعدد کتب شائع کی ہیں اور علمی تحقیقی میدان میں ٹھوس بنیادوں پر کام جاری رکھنے کے منصوبے زیر تکمیل ہیں ، اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند تر فرمائے اور ہمیں ان کا فیضان نصیب کرے۔

مزیدخبریں