1915ء میں ایک نوجوان کیپٹن افراسیاب کے شہید ہونے پر اْس کے غمزدہ باپ نے انتہائی بوجھل دل کے ساتھ کہا تھا، " میں نے تو بیٹا دے دیا اب حکمران بدعنوانی ختم کر دیں"۔ شہید کیپٹن کے رنجیدہ باپ کی خواہش کے برعکس بد عنوانی کے مروجہ طریقوں میں کسی وقفے اور رکاوٹ کے بغیر مسلسل اتنی ترقی ہوئی کہ آئی ایم ایف کو بھی کہنا پڑا کہ پاکستان میں ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہے۔ ہم نے اس کو ایک ضروری برائی کے طور پر نہ صرف قبول کر لیا ہے بلکہ اس کے فروغ کے لئے نت نئے طریقے بھی ایجاد ہو رہے ہیں۔
ابھی حالیہ گندم کے بحران کی بازگشت میڈیا کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی اور سینٹ میں بھی گونجی۔ اپوزیشن کے ایک سینیئر نے بتایا کہ کس طرح ملک کے اندر گندم کے ذخائر موجود ہونے کے باوجود یوکرین سے گندم منگوائی گئی اور اس سے قوم کے نگران سپوتوں نے 85 ارب روپیہ کمایا۔ نگرانوں کی اس پر اثر مشق نے غریب کسانوں پر بجلیاں سی گرا دیں۔
یہ اس مشق کے اثرات کا ہی نتیجہ ہے کہ پنجاب حکومت گندم کی خریداری میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ حالات سے گھبرا کر جب متاثرہ بے حال کسانوں نے مال روڈ پر احتجاج کرنا چاہا تو حکومت پنجاب نے پی ٹی آئی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اْن کی خوب درگت بنائی۔ اگر کسی سال گندم کی فصل اچھی تیار نہ ہو سکے، تب بھی حکومت پریشان ہوتی ہے اور اگر اس سال موسمی و غیر موسمی حالات کے ناموافق ہونے کے باوجود بمپر کراپ تیار ہو ہی گئی ہے تو بھی اربابِ اختیار خوش ہونے اور سجدہء شکر ادا کرنے کی بجائے پریشان سے ہو گئے ہیں۔ کسانوں نے گندم کے ساتھ سرسوں کو متبادل فصل کے طور پر کاشت کیا تھا۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اس کی پیداوار بھی کم ہوئی اور منڈی میں اس کے نرخ بھی اندرونی و بیرونی عوامل کی وجہ سے بہت کم ہیں۔ اب کسان، خاص طور پر چھوٹا کسان جائے تو کہاں جائے۔ تقریباً یہی حال کپاس اور گنے کی فصل کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔
1972ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے قومیانے کی پالیسی اختیار کی تو ملک میں سرمایہ کاری رک گئی۔ اگرچہ ضیاء الحق کے دور میں قومیائی گئی صنعتیں ان کے اصلی مالکان کو واپس کر دی گئی تھیں مگر پھر بھی صنعتکاروں کا اعتماد حکومتی پالیسیوں سے مطابقت اختیار نہ کر سکا اور سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کر دیا۔ یوں بائیس خاندانوں کو سبق سکھانے کی حکومتی پالیسی نے ملکی معیشت کو اس سے بھی بڑا سبق سکھا دیا جو ابھی تک اپنے پاؤں پر دوبارہ کھڑی نہ ہو سکی۔ صنعتکار تو سرمایہ باہر لے گئے مگر غریب کسان اپنے بچے کھچے زمین کے ٹکڑے باہر بھی نہیں لے جا سکتے۔
کہنے کو تو ہم پاکستان کو ایک زرعی ملک قرار دیتے نہیں تھکتے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کسانوں سے حکومتیں سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتی آئی ہیں۔ کھاد، بیج اور زرعی ادویات کی کم یابی، ان کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں اور بعض علاقوں میں نہری پانی کی شدید قلت کے باوجود اگر قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو جاتی ہے تو عجلت میں ترتیب دی گئی حکومتی پالیسیاں ایک بڑے دیو کی طرح کسانوں کے سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔ حکومت کو اس مفلوک الحال اکثریت کی اشک شوئی کا کوئی معقول بندوبست کرنا چاہیے۔
ہمارے نازک مزاج حکمران خود اگر رسماً شجرکاری کے موقع پر کیمروں کی چکاچوند روشنیوں میں پودا لگاتے ہیں تو اس خوش نصیب جگہ پر قالین بچھا کر آس پاس پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ اس کے قیمتی جوتوں کی پالش کی چمک ماند نہ ہو اور اس کے برانڈڈ کپڑے میلے نہ ہوں۔ کسان بے چارہ تو منفی درجہ حرارت میں بھی ناکارہ ٹائروں سے بنے جوتے پہن کر رات کے اندھیرے میں بھی اپنے کھیتوں میں پانی لگاتا ہے۔ موسمی تغیر و تبدل اور دوسری آزمائشوں کی بھٹیوں سے گزرنے کے بعد جب اس کے نہال ہونے کا وقت آتا ہے تو بدقسمتی اس کے در پر دستک دے رہی ہوتی ہے۔
سینت کے اجلاس میں مذکورہ سینیٹر صاحب نے جو نوحہ گری کی اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے، "نگران حکومت نے 22 اکتوبر 2023ء کو یوکرین سے 34 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا جبکہ اس وقت تقریباً 46 لاکھ ٹن گندم کے ذخائر ملک میں پہلے سے ہی موجود تھے۔ یہ گندم 31 سو روپے فی من کے حساب سے خرید کر 45 سو روپے فی من فروخت کی گئی۔ کوئی چیز باہر سے منگوانے کا معاہدہ کیا جائے تو اس چیز کی آمد میں 22 سے 24 دن کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مذکورہ سودے میں پہلا جہاز 8 دن کے اندر ہی آن وارد ہوا اور اب بھی تین جہاز ان لوڈ ہونے کے انتظار میں بندرگاہ پر کھڑے ہیں۔ وفاقی حکومت کہہ رہی ہے کہ ہم نے پنجاب حکومت کی درخواست پر یہ قدم اٹھایا تھا اور پنجاب حکومت یہ الزام وفاقی حکومت پر لگا رہی ہے۔ چور دونوں گھروں میں بیٹھا ہے"۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے گندم باہر سے امپورٹ کی، وہ مافیاز ہیں۔ وسعت اللہ خان نے لکھا ہے کہ گندم جنت سے تو نکلوا سکتی ہے حکومت سے نہیں…۔ حکومت کو اس معاملے پر صاف و شفاف انکوائری کا حکم دینا چاہیے اور ذمہ داران کا تعین کرکے ان کو قانون کے مطابق سزا بھی ملنی چاہیے تاکہ بار بار دہرائی جانے والی یہ تاریخ آئندہ نہ دہرائی جا سکے۔
بزدار حکومت کی بری کارکردگی کے باعث پنجاب کے عوام کو موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ موجودہ گندم کے بحران کو خوش اسلوبی سے ہینڈل کرنا اس حکومت کے لئے اشد ضروری ہے۔ روٹی کی قیمت 20 روپے سے کم کرکے 16 روپے کرنے کا فیصلہ مستحسن سہی مگر اس سے عوام کو متوقع ریلیف نہیں مل سکتا کیونکہ نانبائی اس قیمت پر روٹی بیچنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکومتی مشینری کی طرف سے چھاپے مارنے اور جرمانے کرنے والے ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے جس کی وجہ سے الٹا حکومت کی نیک نامی پہ حرف آ سکتا ہے۔ عجلت میں اٹھائے گئے اقدامات دیر پا نہیں ہوتے۔ شہباز شریف کی وزارت اعلیٰ کے دور میں آٹے پر سبسڈی دی گئی تھی۔ آٹا بڑی تعداد میں سمگل ہو کر پتہ نہیں کہاں کہاں پہنچا اور بالآخر اس منصوبے کو ختم کرنا پڑا۔ نواز شریف نے بھی اسی طرح بیاہ شادیوں کے مواقع پر ون ڈش کا قانون متعارف کرایا تھا جس کو بعد ازاں ختم کر دیا گیا مگر اس سے اس وقت مرغبانی کی صنعت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ رہا سوال بدعنوانی ختم کرنے کا تو شہید کیپٹن افراسیاب کے والد کو پتہ ہونا چاہیے کہ جب کوئی برائی عام ہو جائے تو وہ برائی کی فہرست سے خارج ہو جاتی ہے۔