بات ایک شخصیت کی زندگی سے شروع ہوئی اور ملکی حالات کے مجوزہ حل تک جا پہنچی۔ باغ جناح کے کاسمو پولییٹن کلب کے چھوٹے ٹھنڈے ہال میں ستار طاہر مرحوم سے محبت کرنے والے جمع تھے۔ 84ویں سالگرہ کی تقریب تھی۔ سٹیج پر صدارت کے لئے ڈاکٹر سعادت سعید اور مہمانان گرامی مجیب الرحمان شامی، بیگم نگہت اکرام ستار طاہر، اور سرفراز سید، تاثیر نقوی اور نظامت کے لئے میزبان بزم کتاب دوستاں کے صدرمظہر سلیم مجوکہ موجود تھے۔ ستار طاہر مرحوم کے حوالے سے تو پہلے سے احباب کومعلوم ہے کہ پاکستان کی ادبی تاریخ میں مصنف مترجم اور تخلیق کار کے طور پر وہ گنتی کے چند ناموں میں شامل رہے ہیں۔ ان کا لکھا ہوا بچوں کا ادب بھی منفرد اور کمال کا ہے۔ انہی سب باتوں کا تذکرہ اس یادگار محفل کے مقررین محمد احمد صدیقی محمد ارسلان شفیق احمد خان اعجاز رضوی پروفیسر ڈاکٹر شاہد اشرف ڈاکٹر افتحار بخاری ڈاکٹر کنول فیروز اور راقم الحروف کے علاوہ سٹیج کی زینت احباب نے بھی کیا۔ گفتگو کی شاخ پر اصل پھول مجیب الرحمان شامی کی گفتگو سے کھلا۔ نکتہ شامی صاحب کا یہ تھا کہ ستار طاہر مرحوم کا اور ان کا تعلق جس بنیاد پر تھا وہی آج کے پرپیچ سیاسی منظر نامے کاحل ہے۔ یعنی ایک دوسرے کے نظریات کا احترام کرتے ہوئے مل بیٹھ کر رہنا۔ شامی صاحب کا کہنا تھا کہ ستار طاہر بھٹو کے شیدائی تھے بھٹو کے حوالے سے انکی کتب اورتراجم اسکا ثبوت ہیں اوردوسری طرف شامی صاحب بھٹوکے زخم خوردہ۔ لیکن شامی صاحب کے بقول انہوں نے ستار طاہر کواپنے ماہ نامے قومی ڈائجسٹ میں ذمہ داری دی۔ ستار طاہر صاحب نے شامی صاحب کے نظریات کو برداشت کیا اور شامی صاحب نے ستار طاہر کی بھٹو عاشقی کو برداشت کیا۔ یوں یہ تعلق نہ صرف قائم رہا بلکہ اب تک قائم ہے کہ اب ستار طاہر کے بیٹے عدیل ستار شامی صاحب کے روزنامہ پاکستان میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
جناب مجیب الرحمان شامی کا زور اس بات پر تھا کہ اس وقت وطن عزیز کو جو صورت حال درپیش ہے اس کا ایک ہی حل ہے کہ معاشرے میں برداشت کے جذبے کو عام کیا جائے اور ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو دبانے کی بجائے برداشت کیا جائے اور مل کر رہنے کا ہنراپنایا جائے۔ سیاسی دینی سماجی ہر دائرے میں یہی اصول کامیاب قوموں نے اپنایا ہے اور یہی اصول خوشگوار معاشرے میں گوارا کیا جا سکتا ہے۔ مجھے شامی صاحب کی گفتگو سے محبی مجید نظامی کی پالیسی اور باتیں یاد آئیں۔ نوائے وقت کی ادارتی پالیسی سے کون آگاہ نہیں لیکن نظامی صاحب نے اپنی ٹیم میں سید عباس اطہر کو شامل کیا جنہیں ضیا الحق کے دور میں بھٹو سے محبت کے جرم میں جبری جلاوطنی کاٹنا پڑی تھی۔ عبداللہ ملک جیسے بائیں بازو کے دانشور نوائے وقت کے کالم نگار رہے۔ اور کلاسیک کے آغا امیر حسین کا تو اس تقریب میں ستار طاہر کیساتھ تذکرہ ہوتا رہا وہ بھی بھٹو پرست تھے مگر نوائے وقت کے ریگولر مضمون نگار رہے۔ اور بھی بہت سی مثالیں ہیں۔ محبی اظہر جاوید کے ماہنامہ تخلیق میں ستار طاہر کے فٹ نوٹس کے عنوان سے ایک تنقیدی اورتحقیقی کالم ایک عرصہ چھپتا رہا۔ اس جریدے میں مختلف نظریات کے حامل لکھاریوں کو بغیر کسی تعصب کے جگہ ملتی رہی۔ ان دنوں سیاسی فضا اتنی زخم زخم ہے اور سوشل میڈیا کی دودھاری تلوار نے لہو کی اس سرخی کو اس حال کو پہنچا دیا ہے کہ کوئی بیچ بچائو کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتا۔ سارے بڑے ہاتھی اک دوسرے کی شیشے کی دکانوں میں ہیں۔ ہر کوئی ضد میری مجبوری کی تصویر بنا ہواہے اور مودی سمیت ساری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔
دھند ہمیشہ نہیں چھائی رہتی۔بادل برس کر آسمان آخر خالی کر دیتے ہیں۔ اس فضا کو نارمل ہونا ہے تو کیوں دیر سے ہو۔ کیوں نہ ایسا کچھ ہو کہ نقصان کم سے کم ہو اورسارے سرخ اور سبز ایک تربوزکا حصہ بن جائیں۔ کس کو شامی صاحب کی کچھ باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن انکی اس سوچ سے اختلاف اپنے اپنے نقصان کو دو چند کرنے کے مترادف ہو گا۔ ستار طاہر اس لحاظ سے بھی بڑے قد کے لکھاری اور دانشور تھے کہ اپنے بعد بھی انکے نام سے برپا محفلوں میں ملک و قوم کے لئیخیر کی آواز اٹھ رہی ہے۔ ان کی نواسی طوبی اکرم نے تلاوت کلام پاک سے اس تقریب میں برکت ڈالی اور ان کی چھوٹی بیٹی اور ایچی سن کالج کی پروفیسر سحر ستار طاہر نے خوبصورت انگریزی اور اردو میں جس طرح اپنے بڑے قدکے والد کی اپنیچھوٹے بچوں سے شفقت اور توجہ کا ذکر کیا اور پھر ستار طاہر کی رفیقہء حیات نگہت اکرام ستار طاہر نے جس طرح نپے تلے الفاظ اور دل آویز انداز میں مرحوم کی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ان محبانوں کا ذکر کیا جن کے باعث انہوں نے کبھی خود کوتنہا محسوس نہیں کیا، یہ اپنی جگہ باعث اطمینان ہے کہ ستار طاہر کے وارث انہی کا جذبہ لئے زندگی کا سفر طے کررہے ہیں۔تقریب میں اظہار خیال تو وقت کی کمی کے باعث چند احباب ہی کر سکے لیکن اہل قلم کی ایک کہکشاں حاضر تھی جن میں سلیم طاہر وحید چغتائی ، سابق جج دہشت گردی کورٹ بختیار علی سیال ، نائلہ عابد بزم وارث شاہ کے سربراہ نذر بھنڈر، آفتاب خان ،نجمہ شاہین ، نرگس ناہید ایڈووکیٹ ،میاں شہزاد نعیم بٹ ، نازیہ نعیم بٹ، عارف حسن انعام کاشمیری شامل ہیں۔تقریب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ جناب مجیب الرحمان شامی نے ستار طاہر کے سارے تخلیقی ورثے کو محفوظ کرنے اورعام کرنے کے لئے ایک ویب سائٹ بنانے اور سارا ریکارڈ اس پر اپ لوڈ کرنے کے لئے مالی سمیت ہر طرح کے تعاون کا اعلان کیا اور بزم کتاب دوستاں کی طرف سے تاثیر نقوی مظہر سلیم مجوکہ اور اظہر سلیم مجوکہ نے ستار طاہر مرحوم کی خدمات کے اعتراف میں بیگم نگہت اکرام کو اعزازی شیلڈ پیش کی۔ بلاشبہ ستار طا ہر کی تخلیقات تراجم اور بچوں کے لئے ان کی کتابیں چھاپ چھاب کر بہت سے دوستوں نے مالی فوائد حاصل کئے لیکن ان کے غیر ملکی کتابوں کے تراجم سے فیض پانے والوں کی ایک پوری نسل ہے جو ان کی احسان مند ہے۔ اقبال راہی کے الفاظ میں
آگہی کا رازدان ان کا قلم
روشنی کی کہکشاں ان کا قلم
دل سے نکلی ہے دعا ان کے لئے
کر گئے روشن جوعظمت کے دئے
٭…٭…٭