جناب فخر ماتری نے حریت میںاداریہ نویسی کا قطعی اچھوتا انداز اختیار کیا، اداریہ نویسی کی ذمہ داری جناب حسن مثنّیٰ ندوی کو سونپی گئی۔ اداریہ کا موضوع فخر ماتری خود تجویز کرتے تھے اور اداریہ کے اہم نکات جناب حسن مثنّیٰ کو وہ خود لکھواتے تھے، جناب فخر ماتری چونکہ بنیادی طور پر گجراتی زبان کے ادیب اور افسانہ نگار تھے اس لئے ان کے حروف و الفاظ روایتی اداریہ نگاری سے قطعی ہٹ کر ہوتے تھے اور اسے اردو نثر کے قالب میں ڈھالنے کا کام جناب حسن مثنّیٰ انجام دیتے تھے۔ اداریہ میںکبھی کبھی کوئی تصویر بھی لگادی جاتی تھی جیسا کہ میرے حافظہ میں محفوظ ہے کہ ایک اداریہ میں عنوان سے پہلے اس وقت کے امریکی صدر کی تصویر شائع کی گئی۔ تصویر کا رخ کچھ اس طرح تھا کہ صدر مملکت کی پشت زیادہ نمایاں تھی اور اداریہ کاعنوان تھا ’’صدر امریکہ نے پیٹھ دکھادی‘‘ یہ طرز نگارش اداریہ نویسی کے روایتی انداز سے قطعی بغاوت کا مظہر تھا اور ’’حریت‘‘ کے قارئین اس پر اپنی پسندیدگی کااظہار کررہے تھے۔
’’حریت‘‘ میں مزاحیہ کالم بھی اچھوتے طریقے سے شائع کیا جاتا تھا، ’’حریت‘‘ سے پہلے فکاہی کالم اداریہ کی طرح لمبائی میں پورے ایک کالم پر مشتمل ہوتا تھا مگر ’’حریت‘‘ پہلا اردو اخبار تھا جس نے اسے چوڑائی میں چار پانچ کالموں میں پھیلا کر زیادہ دلکش انداز میں شائع کرنا شروع کیا۔ یہ کالم ممتاز فکاہات نویس جناب نصراللہ خان لکھتے تھے جو مولانا ظفر علی خان کی ادارت میں شائع ہونے والے روزنامہ ’’زمیندار‘‘ سے وابستہ رہے تھے اور فخر ماتری مرحوم نے معلوم نہیں اس گوہر تابندہ کو کہاں سے تلاش کیا تھا لیکن ’’حریت‘‘ میں شائع ہونے والے ان کے کالموں نے بڑی شہرت پائی وہ عمر کے آخری حصے میں شہید محمد صلاح الدین کے سات روزہ ’’تکبیر‘‘ میں ہلکا پھلکا کالم لکھتے رہے جسے بہت خاصے کی چیز سمجھا جاتا تھا۔
’’حریت‘‘ میں دینی کالم کا اجرا ہوا، غالباً اس سے پہلے کوئی روزنامہ دینی کالم کی اشاعت کا اہتمام نہیں کرتا تھا، ممتاز دانش ور جناب محمود فاروقی یہ کالم لکھتے تھے، بعض لوگ اس کالم کو جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی محمود اعظم فاروقی سے منسوب کرتے تھے، ان فاروقی صاحب نے بعد میں جنرل ضیاء الحق کابینہ میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے شمولیت کی، لیکن ’’منبر و محراب‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والا کالم محمود فاروقی لکھتے تھے محمود اعظم فاروقی نہیں۔
’’حریت‘‘ کا رپورٹنگ کا شعبہ بھی بہت مضبوط تھا، اس شعبہ کے سربراہ جناب احمد اسحق مرحوم تھے جو ’’حریت‘‘ سے پہلے ’’جنگ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر رہے تھے۔ احمد اسحق بائیں ہاتھ سے لکھتے تھے لیکن زود نویسی میں انہیں کمال حاصل تھا، ’’حریت‘‘ کی سیاسی اہمیت کی خبروں کا لوہا منوانے میں جناب احمد اسحق کے صحافتی تجربہ اور تخلیقی صلاحیتوں کا بہت دخل تھا۔جناب فخر ماتری نے روزنامہ ’’حریت‘‘ کا ادارتی شعبہ مکمل طور پر ممتاز صحافی جناب یوسف صدیقی کو سونپ رکھا تھا جو روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے بڑی شہرت کے مالک تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان کا نام اخبار کے افتتاحی شمارے سے ہی لوح میں جناب فخر ماتری کے اسم گرامی بحیثیت مدیر کے ساتھ بطور مدیر معاون شائع ہوتا تھا، ’’حریت‘‘ کو اردو کا ایک مثالی اخبار بنانے میں یوسف صدیقی کا کردار بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
’’حریت‘‘ نے پاکستان کو جن مایہ ناز صحافیوں سے متعارف کرایا ان میں جناب محمد صلاح الدین بھی شامل تھے، جنہوں نے بطور سب ایڈیٹر، شفٹ انچارج اور نیوز ایڈیٹر ’’حریت‘‘ میں کام کیا اور بعد ازاں روزنامہ ’’جسارت‘‘ میں بہادر اور جرأت مند ایڈیٹر کی حیثیت سے ناموری حاصل کی اور ’’جسارت‘‘ سے الگ ہوجانے کے بعد ’’تکبیر‘‘ کے نام سے اپنا ہفتہ وار سیاسی جریدہ شائع کرنا شروع کیا۔
جناب فخر ماتری نے ’’حریت‘‘ کے ذریعے ایک جرأت مند اور بہادر صحافی کی حیثیت سے اپنا تشخص منوایا، انہوں نے اپنی محنت شاقہ، خداداد صلاحیتوں اور اپنے رفقاء کے صحیح انتخاب کی بدولت ’’حریت‘‘ کو ملک کے ممتاز ترین اردو اخبار کا مقام دلایا، ابھی ان کو اس میدان میں بہت سا کام کرنا تھا کہ وہ عین اپنے عنفوان شباب میں اپنے دیرینہ دوست ایسٹرن فیڈرل یونین انشورنس کمپنی کے سربراہ روشن علی بھیم جی کے عشائیہ میں شریک تھے کہ انہیں دل کا دورہ پڑا اور وہ کوئی طبی امداد ملنے سے قبل ہی اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور روزنامہ ’’حریت‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں ان کے بڑے صاحبزادے جناب انقلاب ماتری کے کاندھوں پر آ پڑیں، جو بیرسٹر ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرکے چند روز قبل ہی لندن سے کراچی پہنچے تھے۔
جناب فخر ماتری نے اپنے بڑے بیٹے کا نام انقلاب ماتری، اپنے گجراتی اخبار کا نام ’’ملت‘‘، انگریزی اخبار کا نام ’’لیڈر‘‘ اور اردو اخبار کا نام ’’حریت‘‘ رکھا۔ یہ چاروں نام فخر ماتری کے انقلاب آفریں نظریات اور حریت کیش افکار کے مظہر ہیں۔ وہ پاکستانی قوم کو ایک ملت کی لڑی میں پرونا چاہتے تھے اور اس مقصد کے لئے پاکستانی سیاست دانوں میں قائد اعظمؒ جیسے دیانت دار اور بااصول لیڈر کا کردار ادا کرنے کے لئے دل کی گہرائیوں سے خواہاں تھے اور اپنے گجراتی زبان کے مؤثر روزنامہ ’’ملت‘‘ کے مقدر کا ستارہ ہی نہیں آفتاب درخشندہ تھے، پاکستان کی قومی صحافت کی تاریخ میں فخر ماتری کا نام ان کی حریت پسندی کی بدولت امر ہوگیا ہے اور وہ آزادیٔ فکر کا چراغ روشن کرنے والوں کے دلوںمیںتا ابد زندہ و پائندہ رہیں گے۔(ختم شد)