عالمی یوم صحافت پر بلوچستان کے ضلع خضدار کے علاقے چمروک میں سلطان ابراہیم خان روڈ پر دھماکہ ہوا جس میں صدر خضدار پریس کلب محمد صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق اور 7 زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے کیا گیا جس میں نامعلوم دہشت گردوں نے گھر سے یونیورسٹی جاتے ہوئے خضدار پریس کلب کے صدر کی گاڑی کو نشانہ بنایا۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے خضدار دھماکے میں خضدار پریس کلب کے صدر مولانا محمد صدیق مینگل کی شہادت پر گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کیا اور شہداء کیلئے مغفرت اور ان کے اہل خانہ کیلئے صبر جمیل کی دعا کی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت‘ صحافت ہمیشہ کسی نہ کسی طرح زیر عتاب ہی رہی ہے۔ ہر سال 3 اپریل کو منائے جانے والے عالمی یوم صحافت پر صحافتی برادری کی طرف سے یہ عہد کیا جاتا ہے کہ کسی بھی دباؤ کے باوجود آزاد انہ اور ذمہ دارانہ سچ عوام تک پہنچایا جائیگا اور صحافت پر لگی قدغنیں کسی صورت تسلیم نہیں کی جائیں گی۔ مگر ریاستی جبر اور غیر ریاستی عناصر کی مبینہ کارروائیوں کی وجہ سے آزادی صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔حالانکہ آئین و قانون کے متعین کردہ پیرامیٹرز میں رہتے ہوئے صحافتی خدمات سرانجام دی جاتی ہیں۔بدقسمتی سے پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اظہار رائے پیکا جیسے کالے قانون کی جکڑبندیوں کا شکار ہے۔ ترقی کے اس دور میں بھی صحافی برادری اپنی آزادی کیلئے نہ صرف قربانیاں دے رہی ہے بلکہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کر رہی ہے۔ فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں 4 صحافیوں کو قتل کیا گیا جبکہ 104 سے زائد صحافی مختلف مقدمات کی زد میں ہیں۔ خضدار پریس کلب کے صدر مولانا محمد صدیق مینگل کو دہشت گردی کا نشانہ بناناآزادی صحافت پر کاری ضرب ہے جس سے صحافتی برادری کو دبائو میں رکھنے کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ہے‘ اسکی آزادی اور اس سے وابستہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ بالخصوص حکومت کو آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کیلئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کرنے چاہئیں۔