گندم سکینڈل اشرافیہ کی بے حسی کا تازہ نمونہ!!!!

گندم سکینڈل پاکستان میں حکمران اشرافیہ، منصوبہ سازوں، حکمت عملی تیار کرنے والوں، فیصلہ سازوں اور ملکی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں کی بے حسی کا ایسا تازہ نمونہ ہے جسے دیکھ کر یہ اندازہ کرنے میں وقت نہیں لگتا کہ اس ملک پر حکومت کرنے والے، سول بیوروکریسی اور وہ تمام لوگ جس کسی بھی بڑے کاروبار سے منسلک ہیں، وہ جو فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ملک کی کمزور معاشی حالت، پاکستان میں بھوک سے مرتے لوگ اور دو وقت کی روٹی کے لیے چوبیس گھنٹے جدوجہد میں مصروف رہنے والے کروڑوں لوگوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ملک میں کہیں تو کھانے کو آٹا نہیں ملتا، کہیں پانی میسر نہیں، کہیں گندم کے لیے غلامی کرنا پڑتی ہے۔ اس ملک میں ان دنوں گندم کی امپورٹ ایکسپورٹ سب سے بڑے سکینڈل کی صورت میں فیصلہ سازوں کو شرم دلانے کی کوشش میں ہے۔ یہ سکینڈل ہمیں بتا رہا ہے کہ جنہیں ہم مسیحا سمجھتے ہیں وہ ہمارے دشمن ہیں، جنہیں ہم اپنا سمجھتے ہیں انہیں دولت سے پیار ہے، جنہیں ہم اپنا غمخوار سمجھتے ہیں وہی ہمارے دکھوں کا سبب ہیں۔ ڈالر کی اڑان دیکھیں، روپے کی بے قدری دیکھیں اور ہمارے ملک میں حکمرانوں، سرکاری افسران، مل مالکان، کاروباری شخصیات، ناجائز منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں ان سب نے مل کر پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو مذاق سمجھ رکھا ہے۔ 
گندم سکینڈل کو لوگ کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن میری رائے میں معاملے کو دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا جرم بھی ہے، ملک کے بڑوں کی بے حسی اور پتھر دل ہونے کی دلیل بھی ہے۔ جس وقت نگراں حکومت نے گندم امپورٹ کی اس وقت سب سے بڑا مسئلہ آٹے کی قلت کا تھا، آٹا نایاب ہوتا جا رہا تھا، مسلسل مہنگا ہو رہا تھا اور آٹا حاصل کرنے کے لیے طویل قطاریں حکمرانوں اور مفاد پرستوں کے بے حس ہونے کی تصدیق کر رہی تھیں۔ حکومت نے آٹے کی قلت کو پورا کرنے کے لیے گندم امپورٹ کی لیکن اس حکومت کی اصل ناکامی گندم امپورٹ کرنا نہیں بلکہ ملک میں گندم ہونے کے باوجود ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف خاموش رہنا، مل مالکان کو آزادی دینا اور ایسے ذخیرہ اندوزوں کا کھلی چھٹی دینا تھی، اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا حکومت اتنی بے بس تھی کہ وہ ملک کو بلیک میل کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی تھی، کیا حکومت میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ چند لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی اور کروڑوں لوگوں کے لیے سہولت پیدا کرتی۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا، اس کا ذمہ دار کون ہے، کیا ایسے لوگوں کو دوبارہ حکومت میں آنا چاہیے، یا ایسے مفاد پرستوں کو ملک میں کاروبار کی اجازت ہونی چاہیے، کیا ان ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی جائیدادیں ضبط نہیں ہونی چاہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی چھ لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمدکی گئی ہے۔ ایک لاکھ تیرہ ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجود وزیراعظم میاں شہباز شریف کے علم میں لائے بغیر گندم درآمد کی گئی۔ وزارت خزانہ نے ٹی سی پی کے ذریعے گندم درآمد کرنے کی سمری مسترد کی اور نجی شعبے کے ذریعے پانچ لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دی جو بندرگاہ  پر ترانوے روپے 82 پیسے فی کلو میں پڑی۔ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے شفاف تحقیقات کے ذریعے گندم سکینڈل کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ کامران علی افضل کو ملاقات میںکل تک حتمی رپورٹ پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔ سربراہ گندم سکینڈل تحقیقاتی کمیٹی کو اپنی رپورٹ میں دستیاب ریکارڈ اور دستاویزات سامنے رکھ کر سفارشات مرتب کرنے اور ذمہ داروں کا واضح تعین کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دیکھیں یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں اور نہ ہی ایسی کارروائی پہلی مرتبہ ہوئی ہے۔ ہمیں ایسی کارروائیوں کے لیے آئندہ بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے مل ملا کر وہ دوبارہ اپنے عہدوں پر آتے ہیں، قومی خزانے کو نقصان پہنچاتے ملک کو لوٹتے اور عیش سے زندگی گذارتے ہیں۔ اصل کہانی تو دیکھنے کی یہ ہے کہ کیا لاکھوں میٹرک ٹن گندم اصل میں ذخیرہ ہے بھی یا نہیں، یا وہ گندم صرف فائلوں میں موجود ہے اور کوئی بھی حکومت اس ریکارڈ کو درست کرنے کی ہمت کیوں نہیں کرتی، قوم کے ساتھ اتنا بڑا دھوکہ کیوں ہے اور کیوں ہر حکومت اس حد تک بے رحمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کم از کم سطح تک گندم ذخیرہ کرنا ضروری ہے لیکن کیا ذخیرہ کیے ہوئے بھوسے کو گندم ظاہر کرنا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی نہیں ہے۔ جب تک مصلحتوں کا شکار رہیں گے، جب تک ہم ایسی لوٹ مار کرنے والوں کو نشان عبرت نہیں بنائیں گے، ہم بہتری کی طرف سفر نہیں کر سکیں گے، ہمارا ہر عمل وقت گذارنے اور رنگ روغن کا ہو گا، ہم مسئلے کے پائیدار حل کی طرف نہیں بڑھیں گے، ہمیں بار بار موقع ملتا ہے کہ اپنے گھر کو ٹھیک کریں لیکن ہم بار بار یہ موقع ضائع کرتے ہیں۔ مجرمانہ غفلت برتنے والوں کو نشانہ عبرت بنائیں تاکہ کوئی دوبارہ ایسی کارروائیوں کا حصہ بننے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچے لیکن شاید پاکستان میں ابھی وہ وقت نہیں آیا۔
آخر میں حبیب جالب کا کلام
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں 
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں 
لوگ ڈرتے ہیں دشمنی سے تری 
ہم تری دوستی سے ڈرتے ہیں 
دہر میں آہ بے کساں کے سوا 
اور ہم کب کسی سے ڈرتے ہیں 
ہم کو غیروں سے ڈر نہیں لگتا 
اپنے احباب ہی سے ڈرتے ہیں 
داور حشر بخش دے شاید 
ہاں مگر مولوی سے ڈرتے ہیں 
روٹھتا ہے تو روٹھ جائے جہاں 
ان کی ہم بے رخی سے ڈرتے ہیں 
ہر قدم پر ہے محتسب جالب 
اب تو ہم چاندنی سے ڈرتے ہیں

ای پیپر دی نیشن