تحریر انور خان لودھی
کسی یونیورسٹی کی رینکنگ میں مدد دینے والے حقائق کا جائزہ لیں تو یونیورسٹی آف چکوال میں دستیاب سہولتیں حیران کر دیتی ہیں۔ یہ نوزائیدہ یونیورسٹی چکوال اور گردونواح کے عوام کیلئے نعمت سے کم نہیں۔ راولپنڈی ڈویڑن کا دور افتادہ شہر چکوال پہاڑی سلسلہ کے ساتھ ساتھ ایک بارانی علاقہ ہے۔ یہاں کے مکینوں کیلئے یونیورسٹی کسی نعمت سے کم نہیں۔ گذشتہ حکومت پنجاب نے ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی بنانے کی پالیسی کا اعلان کیا تھا اور اس کے تحت صوبے کے کئی چھوٹے اضلاع میں یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا گیا ان میں چکوال بھی شامل ہے۔ نئی یونیورسٹیاں بننے کے حق اور مخالفت میں اہل دانش دلائل پیش کرتے ہیں لیکن یونیورسٹی کا چکوال ایسے پسماندہ شہر میں قائم ہونا کتنا مفید ہے اس کا ادراک چکوال کے باسیوں کو بخوبی ہوچکا ہے۔ چکوال ایک تاریخی علاقہ ہے اور پاکستان کے قیام سے قبل یہاں پر ہندو’سکھ اور مسیحی قومیں آباد تھیں جن میں اکثریت ہندوؤں اور سکھوں کی تھی۔1947میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ قومیں بھارت کو ہجرت کرگئیں جبکہ بھارت سے آنے والے مسلمان یہاں پر آباد ہوئے۔1947ء سے قبل انگریزوں کے دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم کی تحصیل تھی۔ جسے بعد ازاں ضلعے کا درجہ دیا گیا۔ یونیورسٹی آف چکوال کا قیام یکم جنوری 2020 کو عمل میں آیا جب پنجاب اسمبلی نے ایکٹ پاس کرکے اس جامعہ کے قیام کی منظوری دی۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج چکوال اور یو ای ٹی کے بلکسر سب کیمپس کو ملا کر یونیورسٹی کا کیمپس قرار دیا گیا۔ کالج کا عملہ جو ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتا تھا کو پیشکش کی گئی کہ وہ سلیکشن کے ایک عمل سے گزر کر اس نئی یونیورسٹی کی ملازمت اختیار کر لیں یا اپنے محکمے میں واپس رپورٹ کر دیں۔ کسی ادارے کا قیام یقیناً اہم ہوتا ہے لیکن اس ادارے کو کامیابی سے چلانا اہم ترین سمجھا جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف چکوال کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسے وائس چانسلر کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر محمد بلال خان جیسی جفاکش شخصیت نصیب ہوئی۔ وہ ایک زیرک، قابل اور متحرک شخصیت ہیں جنہیں نومولود یونیورسٹی آف چکوال کی آبیاری کیلئے چنا گیا۔ تعلیمی میدان میں شاندار خدمات پر حکومت پاکستان انہیں سول ایوارڈ، صدارتی میڈل برائے ٹیکنالوجی عطا کر چکی ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے انجینئرنگ میں بکلوریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ایریزونا یونیورسٹی سے ایم ایس اور امپیریل کالج لندن سے انٹرفیس انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی۔ انہوں نے NUST میں شامل ہونے سے پہلے بیرون ملک صدارتی اہم منصوبوں کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں، جہاں انہوں نے پرنسپل/ڈین/ڈائریکٹر پروجیکٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نسٹ میں انہوں نے چار نئے ادارے بنائے جن میں یو ایس-پاکستان سینٹر فار ایکسیلنس ان انرجی شامل ہے، ایک ایسا ادارہ جس نے 3 سال کے عرصے میں 13 فل برائٹ پی ایچ ڈی اسکالرز کو تیار کیا، جو پاکستان میں 1950 کی دہائی میں یو ایس ای ایف فل برائٹ پروگرام کے آغاز کے بعد سے ایک قومی ریکارڈ ہے۔ ڈاکٹر بلال خان کے120 سے زائد تحقیقی مقالے بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں، انٹرنیشنل کانفرنسز میں ان کے مقالوں کی تعداد 48 ہے جبکہ ان کے پاس 7 پیٹنٹس ہیں جن میں امریکہ اور WIPO پیٹنٹ شامل ہیں۔ انہیں یو ایس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے زیراہتمام منعقدہ 12ویں فل برائٹ اینڈ ہمفری کانفرنس کی صدارت کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے۔ علاوہ ازیں
بیجنگ میں پاک چین اقتصادی تعاون کانفرنس، UK-PK کول کانفرنس، ASU میں انٹرپرینیورشپ سمٹ، اور بوسٹن میں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف مکینیکل انجینئرز کی طرف سے منعقدہ سالانہ ڈیزائن کانفرنس، فلپائن اور جنیوا میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔
وہ توانائی اور STEM پر گورنر کے وائس چانسلرز کمیٹی کے رکن ہیں، یار محمد خان فاؤنڈیشن کے چیئرمین ہیں۔ڈاکٹر بلال خان NUST کے سینئر فیلو ہیں، یہ اعزاز NUST کی طرف سے اب تک پانچ قومی نامور شخصیات کو دیا گیا ہے۔ چکوال یونیورسٹی (UoC) کے وائس چانسلر کے طور پر انہوں نے کمپیوٹر سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس، فارمیسی، لاء اور پیٹرولیم انجینئرنگ کے شعبوں میں پانچ نئے پروگرام شروع کیے، اور پنڈی ڈویڑن کی سب سے بڑی جنرل پبلک سیکٹر یونیورسٹی قائم کرنے کا سہرا اپنے سر سجایا۔ یونیورسٹی کے سٹی اور بلکسر کیمپس کو وسعت دینے کے لیے تین ارب روپے کی خطیر ADP فنڈنگ حاصل کی۔ کسی بھی یونیورسٹی کی نشو و نما کیلئے دیگر یونیورسٹیوں سے مختلف شعبوں میں اشتراک امرت دھارا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بلال خان نے یونیورسٹی آف چکوال کی فیکلٹی/طلبہ کے تبادلے اور مشترکہ تحقیق کو فروغ دینے کے لیے متعدد فارن یونیورسٹیوں سے ایم او یوز کئے۔ ان میں ییل یونیورسٹی اور ڈیوک یونیورسٹی، سٹی یونیورسٹی نیویارک، USA، یونیورسٹی آف واروک اور فیراڈے انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ریلیجن، UK، Usak اور Bachashire یونیورسٹیز شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد بلال خان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف چکوال میں ایسی سہولتیں بھی فراہم کر دی گئی ہیں جو ہم بیس تیس سال قبل بننے والی یونیورسٹیوں میں دیکھتے ہیں۔ یونیورسٹی آف چکوال میں کیمپس مینجمنٹ سسٹم، اورک، ویڈیو کانفرنس سوٹ، کونجینئل لرننگ سپیسز، انسنٹو سٹرکچر، کوالٹ انہانسمنٹ سیل، سہولت مرکز، ای روزگار سنٹر، کیرئر اینڈ جونسلنگ سنٹر، پروفیشنل ڈیولپمنٹ سنٹر، ڈے کئیر سنٹر، ڈیٹا سنٹر، سٹوڈنٹ ٹیچر سنٹر، علی بابا ڈیجیٹل اکانومی اکیڈمی، ڈیجیٹل لائبریری اور ای لائبریری موجود ہیں۔ اس کے علاوہسات کمپیوٹر لیب، سنٹر فار ریلیجن، سائنس اینڈ ویل بئینگ، 17 فعال سٹوڈنٹس سوسائٹیز۔اور کھیل کے وسیع میدان ہیں۔ ڈاکٹر بلال خان نے بتایا کہ سہولتوں سے آراستہ ہوسٹلز، سٹیٹ آف دی ڈیزائن آرٹ ایکؤپمنٹ اور تقریبات کیلئے آڈیٹوریم بھی یونیورسٹی آف چکوال کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ ہم نے یہاں سمارٹ کلاس رومز کی سہولت فراہم کر دی ہے۔ ڈاکٹر بلال خان پر عزم تھے اور کہا کہ ا?ئندہ پانچ سالوں میں یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کی تعداد 35ہزار تک پہنچے گی جب یونیورسٹی کے تمام شعبے فنکشنل ہونگے ، بارانی انسٹی ٹیوٹ تھوہا بہادر سے معاملات طے کئے جا رہے ہیں۔ پانچ سو بستروں کا ہسپتال مکمل ہوتے ہی میڈیکل کالج بھی یونیورسٹی ا?ف چکوال کے زیر انتظام چلے گا۔ پلاننگ اینڈ ڈیولپمنٹ محکمہ نے ترقیاتی فنڈز کی منظوری دے دی اور چکوال کیمپس میں ایک یونیورسٹی ٹاؤن ا?باد ہونا اب زیادہ دور کی بات نہیں. ڈاکٹر بلال خان کی ایک اور خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں رجسٹرار کی پوسٹ پر ڈاکٹر اشتیاق احمد کا ساتھ حاصل ہوا۔ ڈاکٹر اشتیاق احمد کو ہائر ایجوکیشن کا مثبت اور عمیق تجربہ حاصل ہے۔ ایک عرصے تک وہ سول سیکرٹریٹ میں ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں افسر رہے اور انہیں جامعات کے معاملات دیکھنے کا موقع ملا۔ بعد ازاں وہ منسٹر برائے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے پرسنل سٹاف افسر رہے اور صوبے میں نئی یونیورسٹیوں کے قیام کے پراجیکٹ مکمل کئے۔ یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کے بے شمار اجلاس اٹینڈ کئے اور یوں ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنی ذات میں وہ تمام خوبیاں اور گر پیدا کر لئے جو ایک رجسٹرار کیلئے ضروری ہیں۔ ڈاکٹر بلال خان کا یہ کہنا بجا ہے کہ نیا ادارہ بنانا اور چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا بلکہ ایک چیلنج ہوتا ہے۔ اراضی کا حصول، فنڈز کا اجرا، افرادی قوت کی تیاری اور دیگر انفراسٹرکچر کی تکمیل جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر بلال نے فخر سے بتایا کہ اس یونیورسٹی کے قیام سے وہ بچے اور بچیاں جن کے والدین دوسرے شہروں میں زیادہ اخراجات کی وجہ سے انہیں پڑھا نہیں سکتے تھے وہ چکوال میں اپنی تعلیم مکمل کروا رہے ہیں۔ اب یہ سٹوڈنٹس کا فرض ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کی سہولت سے استفادہ کریں اور علاقے اور والدین کا نام روشن کریں۔ تعلیم مکمل کرکے پاکستان کے سفیر بنیں۔ انہوں نے بتایا کہ تین سال کے قلیل عرصے میں یونیورسٹی آف چکوال میں سٹوڈنٹس کی تعداد 6000 سے زائد ہو چکی ہے۔ سات فیکلٹیز میں 175 قابل اساتذہ تعلیم دے رہے ہیں۔ اس سال گیارہ سو سٹوڈنٹس اپنی ڈگریاں مکمل کریں گے۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف چکوال اس وقت راولپنڈی ڈویڑن کی سب سے بڑی سرکاری جامعہ بن چکی ہے کیونکہ دیگر تین یونیورسٹیاں سپیشلائزڈ کیٹگری کی حامل ہیں۔ ان میں بارانی یونیورسٹی راولپنڈی، یو ای ٹی ٹیکسلا اور ایف جے ویمن یونیورسٹی راولپنڈی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف چکوال کی جغرافیائی اہمیت مسلمہ ہے۔ اس علاقے کے لئے یونیورسٹی ناگزیر تھی۔ اس ادارے کو فروغ دینے کیلئے ڈاکٹر بلال خان نے اپنی جان فشانی سے اس پہاڑی علاقے میں کوہ کن کا کردار ادا کیا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ دودھ نہ سہی پانی ضرور نکلے گا اور یہ پانی نئی نسل کے اذہان کی آبیاری کرے گا۔