صرف سیاحت کو فروغ دے کر معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں 

پاکستان اس وقت جس معاشی بحران کا شکار ہے اس سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاوں مارے جارہے ہیں لیکن معاشی اشاریوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی  ہم  صرف سیاحت  کو ہی  جدید دور کے تقاضوں کے مطابقڈھال دیں تو ہم معاشی بحران سے نکل سکتے ہیں، اسی جانب گزشتہ دنوں ایک وفد سے ملاقات اور ایک تقریب میں سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت آصف علی زرداری نے معاشی بحران سے نکلنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوے کہا تھا کہ  پاکستان ایک بڑی مارکیٹ ہے جہاں سیاحت بالخصوص مذہبی سیاحت کے وسیع امکانات موجود ہیں۔صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ عوامی روابط بڑھا کر پاکستان کے سیاحتی شعبے کی صلاحیت سے بھرپور استفادہ کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ۔دنیا بھر میں سیاحت ایک اہم صنعت ہے اور کئی ممالک کے معاشی استحکام کا دارومدار ہی سیاحت پر ہے۔اِس حوالے سے پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے کہ جہاں قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مذہبی سیاحت کے بھی وسیع مواقع موجود ہیں۔ سکھ برادری کے پانچ اہم ترین مذہبی مقامات پاکستانی پنجاب میں واقع ہیں۔ سکھوں کے اِن مذہبی مقامات میں سے گوردوارہ دربار صاحب کرتارپور سکھوں کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اْن کے روحانی پیشواگرونانک دیو جی نے اپنی زندگی کے آخری 18برس یہیں گزارے تھے۔ اْن کی آخری آرام گاہ اور سمادھی بھی یہیں ہے۔ کرتارپور راہداری کے کھلنے سے اب وہ اِس مقام تک خود چل کر درشن کے لیے آ جا سکتے ہیں جس سے نہ صرف پاکستان میں مذہبی سیاحت کو فروغ مل رہا ہے بلکہ دونوں ملکوں خصوصاً سکھ برادری میں پاکستان کے حوالے سے مثبت تاثر قائم ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کی سکھ برادری  اِس بات کی نشاندہی کرتی رہتی ہے کہ پاکستان سکھ اور بدھ مذہب کی سیاحت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر سالانہ اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔ اِس شعبے سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے لیے حکومت کو فوری طور پر یونیسکو کے مقرر کردہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق انفراسٹرکچر کی ترقی اور اسے برقرار رکھنے کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بھارت کے 20ملین ہندوستانی سکھوں میں سے 79فیصد پاکستان کا دورہ کرنا چاہتے ہیں لیکن اْنہیں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سہولیات، رہائش، سیکورٹی اور ہوٹل مینجمنٹ کے عملے کی مناسب تربیت کی کمی کے علاوہ کم معیاری خدمات شامل ہیں۔ اِسی طرح بیرونِ ملک مقیم 80لاکھ سکھوں میں سے 83فیصد اِسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
 ہماری حکومت کو صدر آصف علی زرداری کی اس بات پر غور کرتے ہوئے سیاحت کے فروغ کے لئے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔دنیا بھر میں مذہبی سیاحت پروان چڑھ رہی ہے لیکن پاکستان میں اِس صنعت کو وہ اہمیت نہیں مل سکی جو ملنی چاہیے تھی۔ حالانکہ پاکستان مختلف مذاہب کے تاریخی ورثے سے مالا مال ہے۔ ایک سروے کے مطابق 58ملین بودھ زائرین پاکستان آنا چاہتے ہیں مگر سہولتوں کی کمی کی وجہ سے پاکستان اِن منافع بخش مواقع سے ابھی تک فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ پاکستان میں سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت، ہندو مت اور جین مت کے درجنوں اہم اور مقدس مقامات موجود ہیں۔ ملک میں قدیم تہذیبوں کے آثار موجود ہیں۔ صوفی مزار، ہندو مندر، سکھوں کے گردوارے اور بدھ مت کی خانقاہیں موجود ہیں، لیکن غیر ملکی سیاحوں کے لیے اتنا کچھ ہونے کے باوجود پاکستان بھارت، سری لنکا اور دیگر علاقائی ممالک سے پیچھے ہے۔اگرچہ ٹوارزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن نے پنجاب میں 480 ورثے اور مذہبی مقامات کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں 106 مقامات تاریخی طور پر اہمیت کے حامل ہیں، 120 مذہبی اور 26 مقامات ایسے ہیں جو مذہبی اور تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔
اب ننکانہ صاحب جہاں بابا گرو نانک پیدا ہوئے۔ یہ سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مقدس ترین جگہوں میں سے ایک ہے اور ایک اندازے کے مطابق سالانہ چھ سے سات ہزار سکھ یاتری ننکانہ صاحب آتے ہیں۔اگر ان کی راہ سے رکاوٹیں دور کر دی جائیں تو بھارت سے باہر رہنے والے سکھ جن کی تعداد لاکھوں ہے، ننکانہ صاحب  اور دیگر مقامات پر آسکتے ہں جس ہم اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کرنے کے ساتھ مقامی لوگوں کو  بھی فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔پاکستان میں مردان، ٹیکسلا اور سوات جو بدھ مت کی گندھارا تہذیب کا گڑھ ہے اور دنیا بھر میں 500 ملین سے زیادہ بدھ متوں کے لیے بہت خاص ہے   اس کے علاوہ پاکستا ن میں دنیا کا سب سے قدیم سوئے ہوئے بدھا کا مجسمہ ہری پور میں ہیلیکن ہم اس سے بھی فایدہ نہیں اٹھا پارہے  حکومت کو اس ضمن میں کوئی پالیسی وضع کرنی چاہیے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح پاکستان آئیں۔ کوریا، چین اور جاپان کے 50 ملین مہایان بدھ متوں کے لیے خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور شمالی پنجاب میں دیگر مقامات مذہبی اہمیت کے حامل ہیں۔ 
 حکومت اگر اس حوالے سے کوئی منظم حکمتِ عملی تشکیل دے تو پاکستان کے لیے اربوں روپے کا زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ اْس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے شہریوں کی بھی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرنے اور معاشی استحکام میں مذہبی سیاحت کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ اِس سلسلے میں مذہبی سیاحت کے حوالے سے اہم مقامات اور علاقوں کی مقامی آبادیوں کو سیاحتی پالیسیوں میں شامل کرکے شعور اور آگاہی فراہم کرنی ہوگی۔ علاوہ ازیں ملک میں امن و امان کی صورت حال اور سیاحتی سہولتوں کو بھی مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سیاحت کو باقاعدہ ایک انڈسٹری کا درجہ دیتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ مقامی افراد کے رویوں کو بھی بہتر بنانے کے ساتھ ان کی ٹریننگ کی بھی ضرورت ہے۔حکومت کو سیاحت کے حوالے سے موثر قانون سازی کرنے اور قوانین مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں بیرون ملک خصوصاً کینیڈا، برطانیہ اور امریکہ کے سفارتخانوں کے عملے کو اس ضمن میں ہدایات جاری کی سکتی ہیں کہ وہ سیاحت کو راغب کرنے کے لئے  اپنا کردار ادا اکریں۔
سیاحت معاشی ترقی کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس سے زر مبادلہ ملک میں آتا ہے اور روزگار کے مواقعے پیدا ہوتے ہیں، مذہبی سیاحت ایک بہت بڑی سیاحتی صنعت ہے۔ مذہبی سیاحت کی ویب سائٹس کے مطابق آج بھی کم از کم 300 ملین افراد دنیا بھر میں مذہبی سیاحت کے لیے اہم مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔ ہر سال 600 ملین اندرونی اور بیرونی ٹرپس کیے جاتے ہیں، جس سے دنیا بھر میں 18 ارب ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔پاکستان بدھ مت، ہندو مت اور سکھوں کے مقدس مقامات کی سرزمین ہے۔ اگر حکومت مذہبی سیاحت کو فروغ دے تو نہ صرف اربوں ڈالر کی اضافی آمدنی ہو سکتی ہے بلکہ سیاحت سے وابستہ کاروبار کے فروغ سے لاکھوں کی تعداد میں روزگار کے مواقع بھی پیدا ہو ں گے اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں  تحمل اور روداری کو بھی فروغ ملے گا جس سے سماجی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری  بھی پیدا ہوگی۔ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورزم کونسل کے مطابق عالمی سیاحت سے ہر سال دنیا کی معیشت کو 8 کھرب اسی ارب ڈالر تک فائدہ ہوتا ہے اور اس سے 31 کروڑ ملازمتیں وابستہ ہیں۔ صرف امریکہ کے جی ڈی پی میں سیاحت کا حصہ ایک عشاریہ چھ کھرب ڈالر سالانہ ہے۔ جبکہ بھارت سیاحت سے سالانہ 240 ارب ڈالر کما رہا ہے۔ سعودی عرب 64 ارب ڈالر سالانہ، ترکی 30 ارب ڈالر اور پاکستان صرف پانچ سو ملین ڈالر کماتا ہے۔پاکستان میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ہیں۔ دنیا کے 27 بلند ترین پہاڑوں میں سے 13 پاکستان میں ہیں جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو بھی شامل ہے۔ اسی طرح سوات جسے پاکستان کا سوئٹزر لینڈ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کو  سیاحت کے شعبے پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک ہندوستان، ایران اور سری لنکا پہلے ہی اس شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہیں اور وہاں مذہبی و ثقافتی مقامات کی سیاحت کروڑوں ڈالرز کی صنعت بن چکی ہے۔

چودھری منور انجم 

ای پیپر دی نیشن