اندر کی بات
عورت کی حکمرانی کو ہمارے سماج نے کبھی قبول نہیں کیا۔ یہ امر کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تو ساری ہی دینی جماعتوں کی طرف سے انہیں ہدف تنقید بنایا گیا۔ حالانکہ آئین میں کسی خاتون کے حکمران ہونے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ اسلامی فقہ میں بھی ایسی کوئی روایت نہیں ملتی جس ے ظاہر ہو کہ اسلامی ریاست میں کوئی خاتون مسندِ اقتدار پر براجمان نہیں ہو سکتی، نہ اس کی حامل قرار دی جا سکتی ہے۔
یہ انٹرو لکھنے کا خیال گزشتہ دنوں بھارتی ویب پر ٹی وی سیریز’’رانی بھارتی‘‘ دیکھ کر آیا۔ یہ سیریز ہندی زبان میں بنائی گئی ہے۔ جو بھارتی ریاست ’’بہار‘‘ کے سیاسی پس منظر پر بنیہے۔ اس کے تمام کردار سیاست اور عام زندگی سے متعلق تھے۔ ’’رانی بھارتی‘‘ دیکھ کر محسوس ہوا جیسے یہ ہمارے ہی سماج کے کردار ہیں جو چھوٹی سکرین پر دکھائے جا رہے ہیں۔ 28اقساط پر محیط سیریز دیکھ کر میں حیرت زدہ سا ہو گیا۔ سیریز میں کچھ بھی ہمارے سماج سے الگ اور مختلف نہیں تھا۔ وہی کردار، جوہم روز اپنی سیاست میں دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں۔
سیریز میں رانی بھارتی (ہما قریشی) کو مرکزی کردار میں دکھایا گیا ہے جو ایک گھریلو خاتون ہے اور اپنے شوہر پر قاتلانہ حملے کے بعد اچانک ریاست (بہار) کی وزیراعلیٰ بن جاتی ہے۔ جیسے ہی وزیراعلیٰ بنتی ہے، مخالفین کی جانب سے اُسے مختلف سیاسی چالوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرکار میں ہونے والی بہت سی بدعنوانیوں اور ذاتی زندگی میں درپیش مسائل سے وہ کیسے نبرد آزما ہوتی ہے یہ سب کچھ اور اس سے بھی الگ اور بہت کچھ سیریز کی 28اقساط میں شامل ہے۔ خوبصورت سکرین پلے اور عمدہ ڈائیلاگ ’’رانی بھارتی‘‘ کی جان ہیں۔ لہٰذا سیریز کو بہت مبہوت ہو کر دیکھا۔ اس کی منظر کشی کو ذہن کے ہر گوشے میں بٹھایا اور محفوظ کر لیا۔
اگر ہم اس بھارتی سیریز کا موازنہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی پہلی منتخب خاتون وزیراعلیٰ مریم نواز سے کریں تو ہمیں رانی بھارتی اور مریم نواز میں بہت سی چیزیں مشترک نظر آئیں گی۔اگرچہ بھارتی ٹی وی سیریز فکشن ہے جبکہ مریم نواز حقیقت میں پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں۔ اور انہیں بھی رانی بھارتی کی طرح درپیش بہت سے مسائل، چیلنجز اور سازشوں کا سامنا ہے۔
سیریز میں جیسے رانی بھارتی نے پیش آنے والے مسائل اور چیلنجز کا سامنا کیا اور اپنی ریاست کے لیے کامیابیاں سمیٹیں ویسے ہی ہمارا یقین ہے مریم بھی بہت سی کامیابیاں سمیٹ سکتی ہیں۔ بڑی وجہ اُن کا پُراعتماد اور خاتون ہونا ہے۔ واضح رہے کچھ مخصوص خوبیاں اور اوصاف صرف خواتین میں ہی پائے جاتے ہیں۔ جس سے سماج میں انہیں انفرادی اورممتاز مقام حاصل ہوتا ہے۔ مخصوص اوصاف اور خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خواتین مردوں سے زیادہ مؤثر حکمرانی کر سکتی ہیں۔
خواتین اکثر شفافیت اور احتساب کو فروغ دیتی ہیں جس سے حکومتی اداروں پر عوام کا اعتماد بڑ ھ جاتا ہے۔ ریاست کی ’’رانی بھارتی‘‘ نے بھی حکمرانی کا ایسا معیار قائم کیا کہ احتساب کی زد میں آنے والے اپنے شوہر کو بھی نہ بخشا۔ اُسے انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا۔ مریم نے بھی رانی بھارتی جیسی روایات کو آگے بڑھایا اور بلا تخصیص احتساب کے فروغ میں کردار ادا کیا تو عوام میں اُن کی جڑیں اور بھی مضبوط ہو سکتی ہیں۔ مریم نواز کے لیے اچھا موقع ہے کہ خواتین کے لیے خود کو رول ماڈل بنائیں۔
دنیا میں کی جانے والی ریسرچ کے مطابق کسی بھی بحران کے وقت خواتین، مردوں کے برعکس مؤ ثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کی وجہ اُن کی خداداد ذہانت ہے۔ مردوں کی نسبت عورتیں زیادہ رحم دل ہوتی ہیں۔ سب کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتی ہیں۔ مریم نواز اچھی روایات قائم کر کے خود کو اچھی حکمران ثابت کر سکتی ہیں۔
خواتین اکثر پائیدار ترقی کی پالیسی کی حامی ہوتی ہیں۔تعلیم، صحت، روزگار اور عوامی فلاح کے ایسے مسائل ہیں جو ہمیں درپیش ہیں۔ جن پر بھرپور توجہ اور فوکس کی ضرورت ہے جس سے عوام میں مقبولیت حاصل کی جا سکتی ہے۔
ریاست بہار کی رانی بھارتی نے سیریز میں جس طرح مختلف بحرانی حالات کا سامنا کیا، بحرانوں کے حل کی تلاش میں ہر ضروری طریقہ اور راستہ اپنایا، وہ مریم نواز سے بھی تقاضا کرتا ہے کہ انہی خطوط پر صوبے کی حکمرانی کو آگیبڑھائیں۔ جس سے اُن کی سیاسی ساکھ اور کیرئیر کو دائمی استحکام اور دوام مل سکتا ہے۔ اُن کا دورِ حکمرانی دوسروں کے لیے مثال بن سکتا ہے۔
خواتین بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کی بھی مالک ہوتی ہیں، مسائل کے حل کی تلاش کے لیے مردوں کی نسبت زیادہ موزوں قرار دی جاتی ہیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں خود کو نئے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے نئے اور غیر روایتی طریقۂ کار ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ کو اپنانے پر توجہ دی جائے تو بہت بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
خواتین معاشرتی اصلاحات میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ جس طرح ہمارا معاشرہ بگڑا ہوا ہے اور جس راستے پر چل رہا ہے ایسے میں معاشرتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ مریم نواز نے بحیثیت وزیراعلیٰ ان اصلاحات کے لیے کچھ کارہائے نمایاںانجام دئیے تو اُن کا دورِ اقتدار سب کے لیے مثالی ہو گا، وہ تاریخ میں امر ہو سکتی ہیں۔
خواتین کے حوالے سے یہ امر بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خواتین عام طور پر تنازعات کے حل میں غیر متشدد جامع اپروچ رکھتی ہیں۔ جس سے دیرپا امن اور استحکام کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ بھارتی ویب سیریز ’’رانی بھارتی‘‘ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانی کوئی آسان کام نہیں، اس میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ اس سیریز نے ہمیں بتا دیا اور دکھا بھی دیا۔ سیریز کا ذکر اس لیے مناسب سمجھا کہ شایدیہ سیریز صوبے کی خاتون وزیراعلیٰ کے لیے مشعل راہ بن جائے۔ ویسے مریم بہت پڑھی لکھی اور زیرک سیاستدان ہیں۔ حالیہ جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن کی تمام الیکشن کمپین کو ہیڈ کیا۔ شہر شہر گئیں اور ملک بھر کے طوفانی دورے بھی کئے۔ جہاں فقید المثال جلسوں سے خطاب کیا۔ جن جلسوں سے خطاب کرتیں وہ بڑے عوامی اجتماعات کے مظہر ہوتے۔ جس سے یہ اندازہ لگاناچنداں مشکل نہیں کہ وہ بے پناہ عوامی مقبولیت کی حامل ہیں۔
مریم نواز کا یہ امتحان ہے کہ پارٹی اور والد میاں محمد نواز شریف نے اُن پر جو اعتماد کیا ہے وہ اُس اعتماد پر کیسے پورا اترتی ہیں۔ صوبے کے عوام کی بہت سی توقعات مریم نواز سے وابستہ ہیں۔ بڑا صوبہ ہونے کے ناطے پنجاب کے مسائل بھی بہت زیادہ ہیں، خاص کر بجلی، گیس کے بل اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے عوام کا جو ’’حال‘‘ کر رکھا ہے، مریم اُس پر توجہ دیں۔ وہ خود کو صوبے کی اچھی حکمران ثابت کرنا چاہتی ہیں اور خواہش رکھتی ہیں کہ عوام مسلم لیگ ن کو چاہیں تو انہیں عوامی فلاح کے منصوبوں کو شروع کرنا ہو گا۔ اُن کے سامنے پی ٹی آئی کی صورت میں ایک بہت مضبوط حریف موجود ہے۔ مریم اگر چاہتی ہیں مسلم لیگ ن، اُن کے اقتدار اور سیاست کو دوام حاصل ہو تو کچھ ایسا کرنا ہو گا جس کا لوگ گمان بھی نہ کرتے ہوں۔ وہ صوبے کے عوام کے لیے جتنی آسانیاں پیدا کریں گی، اتنی ہی آسانیاں مستقبل میں اُن کے لیے بھی پیدا ہوتی نظر آئیں گی۔