اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) ملک کے اندر گندم کی درآمد کے سکینڈل کی تحقیقات ہو رہی ہے، سابق نگران حکومت کے دور میں 2 بار گندم درآمد کا معاملہ ای سی سی کے سامنے آیا، پہلی بار اس کی محرک نیشنل فوڈ سکیورٹی کی وزارت تھی جبکہ دوسری بار وزارت تجارت نے گندم کی درآمد کے لیے ای سی سی سے رجوع کیا۔ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ فوڈ سکیورٹی کی طرف سے سمری آئی کہ 10 لاکھ ٹن گندم ٹی سی پی کے ذریعے درآمد کی جائے، اسی اجلاس میں نجی سیکٹر کو بھی رعایت دی گئی کہ وہ بھی گندم منگوائے۔ کہا گیا گندم کی درآمد امپورٹ پالیسی آرڈر 2022 کے تحت ہوگی۔ رکارڈ میں نہیں بتایا گیا تھاکہ نجی شعبہ کے لیے لمٹ کیا ہوگی۔ اجلاس میں ای سی سی نے گندم سٹاک کی تصدیق تھرڈ پارٹی ویریفکیشن کے ذریعے کرانے کی ہدایت کی لیکن ریکارڈ یہ نہیں بتاتا کہ ویریفکیشن کے نتائج کیا آئے تھے۔ نگران دور میں ایک بار پھرگندم درآمد کا معاملہ فروری 2024 میں ای سی سی کے سامنے آیا، اس بار وزارت کامرس سے تجویز آئی کہ گندم کی درآمد کی اجازت دیجائے تاکہ اس سے بنا ہوا آٹا برآمد کیا جا سکے، یہ اجازت ایکسپورٹ فیسلٹیشن سکیم کے تحت مانگی گئی تھی، ای سی سی نے اس کی اجازت دے دی، ریکارڈ نہیں بتاتا کہ اس سکیم کے تحت کتنا آٹا یا آٹے کی بنی اشیاء ویلیو ایڈیشن کے ساتھ برآمد کیں۔ ملک کے اندر گندم کی بمپر کراپ آنے کی وجہ سے حادثاتی طور پر گندم توجہ کی مرکز بن گئی ہے، پنجاب حکومت ہو یا وفاقی حکومت دونوں اس کی وجہ سے مشکل میں ہیں ، مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کے اندر گندم کی پیداوار کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ہے، کم گندم پیدا ہوئی ہے لیکن جتنی پیداوار ہوئی ہے اس کو سنبھالنا سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ علاوہ ازیں وفاقی سیکرٹری کابینہ کامران علی افضل نے گندم انکوائری سے متعلق گمراہ کن خبر کی تردید کی ہیکامران علی افضل کا کہنا ہے کہ نہ تو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور نہ ہی نگران وزیر اعلی پنجاب محسن نقوی کو طلب کیا گیا ہے۔ خبروں میں کوئی صداقت نہیں۔ علاوہ ازیں سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ صوبوں نے کہا تھا کہ40 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جائے۔ ہم نے 34 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کی، ڈیمانڈ سے 6 لاکھ میٹرک ٹن کم منگوائی، گندم درآمد کا فیصلہ صوبوں کے کہنے پرکیا، وزیراعظم ہائوس کا کوئی کردار نہیں، انوار الحق کاکڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا کہ انتظامی طور خفیہ ادارے عدالت کو جوابدہ نہیں، صرف وزیر اعظم اور وزارت دفاع کو جوابدہ ہیں۔