سابق نگران وزیر فوڈ سکیورٹی کوثر عبداللہ نے گندم امپورٹ کی ذمے داری لینے سے انکار کردیا۔نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ نگران دور میں وزیر کو دکھائے بغیر سمری منظور کرنے کا کلچر فروغ پا چکا تھا.سیکرٹریز اور اسٹیبلشمنٹ ایسا یہ کہہ کر کرتے تھے کہ نگران وزیر تو 4 دن کیلئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں نے گندم درآمد کرنے کی مخالفت کی تھی جبکہ نجی شعبے کو گندم منگوانے کی اجازت کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے دی تھی۔
دوسری جانب سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ میں از خود بھاگا بھاگا کمیٹی میں نہیں جائوں گا.اگر مجھے کمیٹی باضابطہ طلب کر ے گی تو میں ضرور پیش ہوں گا۔انہوں نے کہا، کہ کہا جا رہا ہے ہمارے دور میں گندم امپورٹ ہوئی جس سے بحرانی کیفیت پیدا ہوئی۔دوسرا چارج یہ آرہا ہے کہ ہم نے کرپشن کی اس وجہ سے گندم امپورٹ کی۔انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان میں امپورٹ بل آرڈر پی ٹی آئی کی حکومت کا ہے.ہم نے کوئی نیا ایس آر او جاری نہیں کیا،ہم ایس آر او کے تحت تسلسل سے یہ کام کررہے تھے۔جوڈیٹا جمع ہواوہ پی ڈی ایم حکومت کے آخری دنوں میں ہوا،پی ڈی ایم حکومت نے فیصلہ ہم پر چھوڑ دیا.ہم نے صرف یہ فیصلہ کیا کہ پاکستانی حکومت ریاست کاپیسہ استعمال نہیں کرے گی۔ہم نے فیصلہ دیا کہ ہم خریداری نہیں کریں گے پرائیوٹ سیکٹر کو کرنے دیں.ہم نے گندم امپورٹ کرنے کی پرائیوٹ سیکٹر کو خصوصی اجازت نہیں دی ،جو ایس آر او تھا اس کے تحت پرائیوٹ سیکٹر خود امپورٹ کر سکتے تھے۔گندم کے حوالے سے مس مینجمنٹ کے مسائل تھے،ہم نے پاکستان کی سرکار کا پیسہ بچایا.ہم نے جو فیصلہ کیا اس میں 2.4ملین ٹن کے گیپ کوسنبھالنا تھا،جو اضافی گندم کا واویلا ہے وہ صرف3،ساڑھے تین ٹن ہے،3،ساڑھے 3ٹن گندم صرف تین روز کی کھپت کیلئے ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 3پارٹیاں ایسی ہیں 50،60فیصد امپورٹ ان کے حصہ میں آئی.سب کے سب نے ہمیں چور ڈکلیئر کیا.اگر کسی نے طلب کیا تو ہم ضرور معاونت کریں گے۔میں پاکستان کے عوام کی عدالت میں ہوں،کتے کی خوراک منگوانے پر ڈالر خرچ کرنے پر کسی کواعتراض نہیں،سستی روٹی ملنے پر سب کو تکلیف ہے۔اگر کسی کو پولیٹیکل اورالیکٹورل پراسس پر اعتراض ہے تو فورم موجودہیں.یہ فورم انہوں نے بنائے ہیں میں نے نہیں بنائے،بہت سارے لوگ 85ارب ،300ارب کی کہانی ہم پر تھوپی جا رہی ہے۔پاکستان میں بہت سارے لوگ ٹویٹر پر مجھے چور کہہ رہے ہیں.کیا میں چور ہوں،ان کے کہنے یا مان لینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔