ہمدرد شوریٰ میں یکساں قومی نظامِ تعلیم و نصاب کی ضرورت پر مذاکرہ

ہمدرد مجلس شوریٰ نے 3 نومبر 2010ء کو غازی علم الدین شہید روڈ پر اپنے آڈیٹوریم میں یکساں قومی نصاب و نظامِ تعلیم کی ضرورت پر ایک جامع مذاکرے کا اہتمام کیا جس میں پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے چیئرمین راجہ محمد انور کو خصوصی مقرر کے طور پر مدعو کیا گیا جبکہ تنظیمِ اساتذۂ پاکستان کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر میاں محمد اکرم، پروفیسر رائو جلیل احمد، میجر جنرل (ر) راحت لطیف اور ڈاکٹر سعید شاہد نے تفصیلی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اس تقریب کے سپیکر پروفیسر ریٹائرڈ رفیق احمد نے مجلس کے اختتام سے پہلے ان شخصیات سے معذرت کی جن کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ آج اس تقریب کے لئے جو ایجنڈا مُدَوّن کیا گیا تھا وہ قبل از وقت تمام مقررین کو بھیج دیا گیا تھا تقریباً تمام مقررین نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ اس وقت پاکستان میں یکساں نظام تعلیم کی اشد ضرورت ہے جبکہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں رائج نصاب تعلیم میں بڑا فرق ہے، نجی تعلیمی اداروں میں ایسا نصابِ تعلیم پڑھایا جا رہا ہے جو انگریزی زبان کی ترویج کا ذریعہ اور پاکستان کے قومی احساسات و جذبات کو نظرانداز کر کے ہر نئی نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کی گرفت میں دے دینے کا ذریعہ ہے جبکہ پاکستان کا نظام تعلیم اور پاکستان کے نظام تعلیم کی نگرانی میں تیار کردہ ہر سطح کے نصاب تعلیم و تدریس کو قرآن و سنتِ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات، بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے فرمودات اور مصور پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کے قومی افکار و خیالات کی روشنی میں نابغۂ روزگار ماہرینِ تعلیم کی محنت سے مرتب کیا جانا چاہئے اور پاکستان کی قومی زبان ہی کو بنیادی طور پر ذریعۂ تعلیم و تدریس رکھا جانا چاہئے جبکہ پاکستان میں پہلی جماعت سے بچوں کو انگریزی کے سانچے میں ڈھال دینے کی تیاری کی جا رہی ہے، ماضی میں حکومتوں نے زرِکثیر خرچ کر کے ماہرین تعلیم سے کئی بار تعلیمی پالیسی تو تشکیل کر دی مگر ہر تعلیمی پالیسی کو سفارشات تک محدود رکھا گیا چنانچہ کسی بھی تعلیمی پالیسی کے عمل پذیر ہو جانے کا موقع نہ آ سکا۔ ڈگری کالج ملتان کی پرنسپل فرح زیبا نے ’لاہوریات‘ سے گفتگو کرتے ہوئے تحریراً کہا کہ ’’میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اس کمیٹی کی رکن ہوں جو نصاب پر نظرثانی کرتی ہے اور میں اس مباحثے میں مقررین کی تقاریر سن کر اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ان مقررین کو تو معلوم ہی نہیں کہ نصاب کس اہم قومی دستاویز کا نام ہوتا ہے، حتٰی کہ یہ مقررین تو نصاب سازی کے آداب و معلومات سے بھی نابلد ہیں پاکستان میں نصاب سازی عملی طور پر دو درجوں میں ہوتی ہے پہلے مرحلے میں وفاقی نصاب ساز ونگ، قومی تعلیمی مقاصد کی روشنی میں نصاب کا خاکہ تیار کر کے صوبوں کو روانہ کرتا ہے جس میں پہلی جماعت سے بارہویں جماعت تک ہر کلاس کے ہر مضمون کے مقاصدِ تدریس اور ان سے ملنے والے نتائج کا اندراج ہوتا ہے، ان کی روشنی میں ہر صوبہ اپنے ٹیکسٹ بک بورڈ کے ذریعے درسی کتب تیار کرواتا ہے۔ راجہ محمد انور نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں تعلیم، صوبائی سبجیکٹ ہی ہوتا ہے، بھارت نے بھی اس طرح قومی یکجہتی حاصل کی ہے۔ راجہ محمد انور نے دوقومی نظرئیے کی بات کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ پاکستان کے قیام سے پہلے کی بات ہے جو ہم سے پہلے ہوئی ہم نے تو پاکستان میں دو طبقات دیکھے ہیں، ایک طبقہ تو وہ ہے کہ جس کو ہر طرح کی تعلیمی سہولتیں حاصل ہیں اور ایک طبقہ ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہوتا ہے جہاں کوئی ’’باتھ روم‘‘ بھی نہیں ہوتا، جہاں تک تعلیمی نظام کا تعلق ہے تو پاکستان کے تمام صوبوں میں فکری یکجہتی اور کامل افہام و تفہیم پیدا کرتے رہنے کے لئے کمشن قائم کئے جائیں گے اور ان معاملات پر احتسابی نگاہ رکھنے کی ذمہ داری کئی اور ادارے بھی ادا کرتے رہیں گے اور میں کہوں گا کہ سٹیٹ کی وہ ذمہ داری ہے کہ وہ تمام افرادِ ملت پاکستان کو حصول تعلیم کی یکساں سہولتیں فراہم کرے کیونکہ معاشرتی خرابیوں کا ازالہ صرف اسی صورت میں ہو سکے گا کہ ہر فرد تعلیم یافتہ ہو مگر اس حقیقت کو بھی ملحوظ رکھنا ہو گا کہ سائنس، میتھ اور آئی ٹی کے میدان میں دنیا جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کا ساتھ دینے کے لئے انگریزی زبان بھی ہماری مکمل معاونت کر سکتی ہے۔ راجہ محمد انور نے اس بارے میں حیرت کا اظہار کیا کہ پاکستانی میں تعلیمی نظام کے لئے کبھی اتنی رقم مختص نہیں کی گئی جو ترقی یافتہ قوتیں مختص کر رہی ہیں، جرمنی میں 33 فیصد اور سکنڈے نیوین ممالک میں ان کے جی ڈی پی کا 37 فیصد تعلیم کے لئے مختص کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں آج تک 3 فیصد بھی کبھی مختص نہیں کیا گیا اور اگر کبھی اتنی رقم مختص کر بھی دی گئی تو خرچ نہ کی گئی۔

ای پیپر دی نیشن