پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں فوجی آمریتوں اور سیاسی حکومتوں دونوں ہی کے ادوار میں صحافیوں اور دانشوروں پر خصوصی نظر کرم دونوں صورتوں میں ہوتی رہی ہے اور یہ عمل بدستور جاری ہے۔ صحافی اور دانشور زیرعتاب بھی رہے ہیں اور پھر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق نوازے بھی جاتے رہے ہیں۔ لفافہ گروپ سے لیکر پلاٹوں کی الاٹمنٹ اور غیرملکی دوروں میں وی آئی پی فلائٹس کے مزے بھی لیتے رہے ہیں۔ سفارت کے میدان میں بھی ہر دور میں کوئی نہ کوئی صحافی ضرور فیضیاب ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکہ کی طویل موجودگی اور پھر آنیوالے سالوں میں افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاءکے عمل کے بعد پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی سطح پر اہمیت میں اضافہ قدرتی عمل ہوگا۔ پاکستان کی حیثیت اس بناءپر بھی اہمیت اختیار کررہی ہے کہ اب امریکہ کو افغانستان سے بری طرح ناکام ہو کر نکلنا بھی ہے۔ امریکہ اپنے اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے سفارتی، سیاسی اور دفاعی محاذوں پر جس گریٹ گیم کو جاری رکھے ہوئے ہے اب اس میں ”ڈرون جرنلزم“ بھی متعارف کروایا جاچکا ہے۔ پاکستان کے مختلف میڈیا نیٹ ورکس کو مختلف ذرائع سے امریکی پالیسیوں کی حمایت میں پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر صحافیوں اور دانشوروں کو انڈر ٹیبل امریکی ڈالروں کی تقسیم ہوتی چلی آرہی ہے۔ پاکستان میں نئے امریکی سفیر اپنے ڈپلومیٹک بیگ میں جہاں آنیوالے سالوں کیلئے نیا ایجنڈا اور روڈمیپ لیکر اسلام آباد آئے ہیں، وہاں اس بیگ میں ”March of the media Drones“ کا تحفہ بھی لیکر آئے ہیں۔ اس سے پیشتر ڈرون جرنلزم عراق اور لیبیا میں بھی متعارف کروایا گیا تھا جس پر آج بھی عمل جاری ہے لیکن اسکے باوجود ان ممالک میں امریکہ بری طرح ناکام ہوا ہے۔ امریکی سی آئی اے کا خصوصی سیل افغانستان کے بعد اب پاکستان اور ایران میں اپنے خصوصی ذرائع استعمال کرکے ڈرون جرنلزم کیلئے گزشتہ چند سالوں سے باقاعدگی سے صحافیوں اور دانشوروں کو مختلف سیمینارز اور عالمی کانفرنسوں میں مدعو کرکے اپنا ہمنوا بنا رہا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی صحافیوں کو مطالعاتی دوروں کا نام دیکر امریکہ بلوایا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ نواز صحافیوں کی کھیپ تیار کی جاتی ہے۔ آج کل کے جدید دور میں میڈیا ہی وہ طاقت اور ستور ہے جو کہ عوامی رائے عامہ کو یکسر بدل کر رکھنے کی بھرپور ترین جگہ ہے۔ پاکستان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بے پناہ سکوپ پایا جاتا ہے جس کا امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ مغربی میڈیا میں بے پناہ سکوپ پایا جاتا ہے جس کا امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ مغربی میڈیا میںامریکہ مخالف صحافیوں کی اکثریت ڈرون جرنلزم کے بارے میں اب یہ کہتے ہیں:
”Another SPY in the SKY“
چونکہ پاکستان میں پروگرام کے مطابق 2013ءقومی انتخابات کا سال ہے اور اگر وقت مقررہ پر پاکستان میں واقعی عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے تو پھر آئندہ آنیوالے چند ماہ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ عبوری سیٹ اپ کا قیام اور پھر غیرجانبدارانہ انتخابات کیلئے انتخابی مشینری جس پر کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد ہو یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب میں بھی مصدقہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نواز لابی سرگرم عمل ہے جو کہ پاکستان میں امریکہ نواز نگران حکومت قائم کروا کر عام انتخابات کا انعقادچاہتی ہے۔ حسین حقانی جن کو کہ حکومتی ڈھانچے سے الگ کردیا گیا تھا، وہ بدستور امریکہ میں موجودہ حکومت میں شامل انتہائی اہم شخصیات کیلئے آئندہ حکومت میں بھی انکے کردار کو یقینی بنانے کیلئے لابنگ کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان میں امریکہ کی حمایت میں ڈرون جرنلزم کو فروغ دینے کی غرض سے صحافیوں اور دانشوروں میں مشاورت کے ذریعے امریکہ نواز جرنلزم مافیا قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان جو کہ اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گذر رہا ہے اس وقت قومی وحدت اور ملکی سالمیت کا تقاضا ہے کہ پاکستان میں تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر قومی ذمہ داریاں ادا کریں اور اسی طرح ملک میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا کردار غیرجانبدار ہو کر ادا کرنا چاہئے۔ حقائق ضرور بے نقاب ہوں، حکومت کی ناقص کارکردگی پر ہر حال میں تنقید ہو، حکومتی اداروں میں اعلیٰ کارکردگی کا فقدان ہے تو اسکی نشاندہی بھی لازمی ہو، اسی طرح غیرملکی قوتوں کا آلہ کار ہرگز نہ بنایا جائے۔ پاکستان کی آزاد اور خودمختار مملکت کا تصور اجاگر کیا جائے۔ ان تمام عوامل کو مدنظر رکھ کر امریکی ڈالروں کو ٹھکرا دیا جائے اور پاکستان کے میڈیا میں آزاد اور غیرجانبدار پالیسی کو اپنا بنیادی اصول بناتے ہوئے ایسے عناصر کی بھی نشاندہی کی جائے جو کہ حکومت تو پاکستان میں کرتے ہیں مگر حکومت بنانے کیلئے جوڑتوڑ بیرون ملک جاکر کرتے ہیں اور غیرملکی قوتوں کے آلہ کار بن کر پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرتے ہیں۔ امریکہ کی ڈرون جرنلزم کی پالیسی مصر، لیبیا اور عراق میں بری طرح ناکام ہوئی ہے، خاص طور پر مصر میں وہاں کے دانشوروں اور صحافیوں نے میڈیا میں امریکہ کی مداخلت کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے اور جس کا نتیجہ آج مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی قیادت میں اس عوامی حکومت کا قیام ہے جو کہ 25 جنوری کے انقلاب کے بعد مصر میں برسراقتدار آئی ہے حالانکہ ڈاکٹر محمد مرسی قاہرہ یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرکے بقایا تعلیم امریکہ میں کیلیفورنیا کی سادرن یونیورسٹی سے حاصل کرکے کیلیفورنیا کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام بھی کرتے رہے ہیں۔ اسکے باوجود اب مصر میں امریکہ کی تمام پالیسیوںکو خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔ پاکستان میں میڈیا جو کہ اب مکمل طور پر آزاد ہے اور اپنا بھرپور کردار ادا کررہا ہے مگر اسکے چند حلقوں پر یقیناً امریکی چھاپ لگی ہوئی ہے جو کہ ایک کھلی حقیقت ہے۔ امریکی اثرورسوخ اور امریکی ڈالرز اپنا رنگ دکھا رہے ہیں لیکن پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کیلئے یہ سب کچھ زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں یقیناً اب اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا، پاکستان اور صرف پاکستان کیلئے ہی سوچنا ہوگا اور اس سرزمین پر کسی بھی غیرملکی ڈرون جرنلزم کی بھرپور مزاحمت کرنی ہوگی۔ آنیوالے چند ماہ اور آنیوالا سال حکمرانوں کیلئے اور خاص طور پر پاکستانی میڈیا کیلئے کڑا امتحان لیکر آرہا ہے۔ اسسارے عرصے میں میڈیا نے اپنا غیرجانبدارانہ کردار ادا کرنا ہے۔ قوم کا ہر فرد اپنا پرنٹ میڈیا میں لکھے گئے ہر لفظ اور الیکٹرانک میڈیا پر کہے گئے تمام کلمات پر غور کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم میں اتنا شعور بیدار ہوچکا ہے کہ وہ غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی جرا¿ت رکھتے ہیں لہٰذا اب ڈرون حملوں کے بعد ڈرون جرنلزم کی بھی عوامی سطح پر مخالفت ہوگی۔ بہتر یہی ہے کہ میڈیا پاکستان اور پاکستان کے عوام کی ترجمانی کرے اور غیرملکی تسلط کو اپنے نیٹ ورکس پر حاوی نہ ہونے دے۔ اسی میں پاکستان کا تابناک مستقبل پوشیدہ ہے۔ ماضی کی نسبت اب نوجوان نسل زیادہ بیدار ہوچکی ہے جس کا تمام تر کریڈٹ پاکستانی میڈیا کو جاتا ہے۔ میڈیا کو اپنی کریڈیبلٹی ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگی۔ ملکی سالمیت اور قومی وحدت کے آگے امریکی ڈالرز کی اہمیت ہونی ہی نہیں چاہئے۔