ایک عرب سردار بہت مفلس ہوگیا۔ ایک خسیس امیر کو علم ہوگیا، وہ سردار کی بیٹی کا رشتہ مانگنے گیا۔ سردار نے تلوار بے نیام کی اور اس کا سر تن سے جدا کردیا کہ اگر میں مالی حوالے سے گر گیا ہوں تو کیا میری سرداری بھی باقی نہ رہی کہ اس خسیس نے کمزور جان کر رشتہ مانگ لیا۔ آج اپنے حکمرانوں کی غلامانہ اور ڈالر پرستانہ پالیسیوں کے باعث ایک پاکستانی شہری کی امریکی ہوائی اڈوں پر جو درگت بنائی جاتی ہے، اسکی تفصیلات کوئی عمران خان سے پوچھے جو قوم کے ہیرو، اور ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ اور بین الاقوامی شہرت کے حامل پاکستانی شہری ہیں۔ ہم وہ تفصیلات نہیں دہرانا چاہتے کہ خان صاحب کو جہاز سے اتار کر دو گھنٹے ان کی کس قدر ”عزت افزائی“ کی گئی کہ بعض زخم کریدنے سے زخم سے خون رسنے لگتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک ملک کے شہری کے ساتھ امیگریشن والوں نے بدسلوکی کی اور اسکی حکومت نے امریکی پروازوں پر پابندی لگا دی۔ امریکی وزارت خارجہ نے معافی مانگی اور آئندہ ایسا کچھ نہ کرنے کا وعدہ کرکے تعلقات استوار کئے۔ ایک بھارتی وزیر اپنا جہاز لیکر امریکہ گئے، انکے جہاز کو اتار کر انکے ساتھ بھی امریکی اخلاقیات کا مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا گیا تو اس نے جہاز میں بیٹھے بیٹھے اپنے جہاز کا رخ واپس بھارت کی طرف موڑ لیا۔ پھر بھارتی وزارت خارجہ نے پالیسی طے کی کہ آئندہ کسی بھی امریکی کو بھارت میں داخل ہونے سے ڈیپورٹ کرکے امریکی طرز میں تفتیش کی جائیگی اور اس پالیسی سے امریکہ کو مطلع کردیا گیا۔ انہی دنوں بل کلنٹن کا بھارت آنے کا دورہ طے پاگیا، اب امریکی عہدیداران کو پسو پڑ گئے کہ اب کیا کیا جائے، کہیں ہمارے صدر کے ساتھ بھی وہ سلوک نہ ہو جو ہم نے عمران خان کے ساتھ کیا اور فی الفور نہ صرف بھارت سے باقاعدہ معذرت کی گئی بلکہ آئندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ کیا ستم ظریفی ہے کہ عمران خان ٹورنٹو ہوائی اڈے پر جو کچھ کیا گیا اس پر ہماری وزارت خارجہ کی گویائی جاتی رہی، اپوزیشن کے ہونٹ سل گئے، اور کئی تو خوش ہوئے کہ اس سونامی والے خان صاحب کے ساتھ جو ہوا اچھا ہوا، حالانکہ بات عمران خان کی نہیں خاندانِ غلاماں یہ بھی جان لے کہ بات ایک پاکستانی شہری کی ہے، وہ کوئی بھی ہو اگر اس کے ساتھ یہ بدسلوکی کی جائیگی تو قوم تقاضا کریگی کہ آئندہ کسی بھی امریکی کو پاکستان میں اس وقت تک داخل نہ ہونے دیا جائے جب تک اسے سراغ رساں کتے نہ سونگھ لیں، اسے دو گھنٹے بٹھایا جائے تاآنکہ اصل منزلِ مقصود تک جانے والا طیارہ روانہ ہوجائے، اور بعد از ہزار خجل خواری اسے پاکستان کے اس اڈے پر اتارا جائے کہ اسکے کپڑے پہلے ہی اتر چکے ہوں۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو ہمارے ہر امریکہ جانیوالے کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ یہ جو ڈالر خور حکمران ہیں یہ تو ہتک پروف ہیں، بلکہ ہتک کو بھی اعزاز جانتے ہیں۔ اب یہ حکومت تو رفت رفت کے قریب ہے، لیکن آئندہ جو بھی برسراقتدار آئے وہ کم از کم اپنی اور قوم کی پگڑی سنبھال لے اور اگر یہی چال بے ڈھنگی جاری رہی جو اب بھی ہے تو آنیوالے دور میں اور بڑھ جائیگی۔ پاکستان کو اب مزید شارع عام یا رحمن ملک نہیں بننے دیا جائے، آخر پاکستان ایک آزاد خودمختار ریاست ہے، یہ امریکہ کا اتحادی ہے، مگر اپنی رسوائی مول لینے میں نہیں۔ ہم امریکیوں کو جتنی عزت دیتے ہیں وہ بھی اتنی ہی لوٹائیں، ورنہ خوشگوار تعلقات، ناگوار حالات میں قائم رکھنے کا طریقہ ہمیں بھی آتا ہے۔
تاحال ہماری وزارت خارجہ کی جانب سے عمران خان یا کسی بھی پاکستانی کو ٹف ٹائم دینے پر امریکہ سے کوئی احتجاج نہیں کیا گیا۔ عوام یہ چاہتے ہیں کہ ہر امریکی کو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے امریکی طرزِ تفتیش سے گزارا جائے اور وزارت خارجہ کم از کم غیور عوام کا یہ پیغام ہی امریکہ کو پہنچا دے تو کھوئی ہوئی عزت بحال ہوسکتی ہے۔ ایک صاحب نے تو یہاں تک ہانک دی کہ خان صاحب نے آخر مک مکا کرکے امریکہ داخل ہونے کی اجازت حاصل کرلی۔ عمران خان ڈرون حملوں کیخلاف ہیں، اور اس پر امریکہ میں کھڑے ہو کر بھی احتجاج کرچکے ہیں۔ شاید ہر گنجا طوطا، کسی گنجے کو دیکھ کر یہی کہتا ہے کہ کیا تو نے بھی عطر کی شیشی گرائی تھی؟ کہ مار کھا کھا کے گنجے ہوگئے، یہ مک مکا والے ایسے ہی گنجے طوطے ہیں جنہوں نے اسی شیشی کو گرایا اور توڑ دیا کہ جس میں پاکستان کی عزت وغیرت کی خوشبو بند تھی، ہمارے حکمران امریکی حکمرانوں کی کرم فرمائیوں کی قیمت نہیں چکا سکتے اور ہمارے بے گناہ شہریوں کو قتل کرنے کی قیمت امریکہ کو چکانی ہے، یہ گردشِ ایام ہے، یہ ساغر و مینا ہمارے بھی سامنے ہے، مگر کوئی بڑھ کر مینا اٹھانے والا نہیں، البتہ چلو بھر مئے گلفام میں ڈوبتے ضرور ہیں، مگر صحیح سالم نکل آتے ہیں کہ اب....ع
جھپٹتی نہیں ہے یہ کافر منہ سے لگی ہوئی
جن کی اندر کوئی عزت نہیں کی جاتی وہ باہر بھی رسوا ہوتے ہیں، انتخابی اخالاقیات سامنے آنے لگی ہے، یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مباحثوں، مذاکروں میں کیا زبان 18 کروڑ عوام کے سامنے استعمال کی جاتی ہے، چہرے ابھی سے مسخ ہونے لگے ہیں، قوم ملک نظریہ پاکستان سے عشق کا غازہ م سواا ایک رجلِ رشید کے کسی کے چہرے پر نظر نہیں آتا۔ امریکہ میں داخلے کیلئے جو رسوا کن پروسیجر اختیار کیا گیا ہے وہی ہر اس امریکی کے ساتھ روا رکھا جائے جو ارضِ پاک پر قدم رکھنا چاہتا ہے، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری دل کی دل میں رہ جائیگی، مگر اب عوام آئندہ انتخابات میں چاہیں تو لنکا ڈھا سکتے ہیں، کایا پلٹ سکتے ہیں، ذات برادری دوستی سے بالاتر ہو کر اپنا ووٹ اہل افراد کے حق میں استعمال کریں وگرنہ یہ غلطی دہرانے کا بھی اب اور موقع نصیب نہ ہوگا، کیونکہ ملک جس تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اب وہ مزید کسی ناکام تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا، جو قوم اپنے محلے میں ایک دوسرے کو مارنے والے افراد نہیں چھڑا سکتی وہ ظالموں سے اپنی گردن کیا خاک چھڑا سکے گی۔
امریکی امیگریشن والے پاکستانیوں کے ساتھ جو بدسلوکی کررہے ہیں، وہی ہر امریکی شہری کیلئے اختیار کی جائے جو پاکستان کا رخ کرے۔ ڈرون گرانے کا آرڈر کیوں نہیں دیا جاتا؟ اگر ایک بار بھی ایسا کیا گیا ہوتا تو دوسرا ڈرون پاکستان میں داخل نہ ہوتا، معذرت خواہی کے بجائے حق طلبی کی ضرورت ہے اور لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، یہی وہ انداز ہے جسے اپنا کر ہی کوئی ملک فولاد بن سکتا ہے۔