سینیٹر پرویز رشید کا فرمان ہے کہ عمران کا امریکہ میںداخلے کیلئے مک مکا عوام پر آشکار ہو چکا ہے۔
بندہ ایسی بات کرے کہ جس کا یقین نہ آئے تو کم از کم شک تو پیدا کر جائے۔ پرویز رشید نے خان صاحب پر الزام لگانے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا اور ایک ایسا الزام دھر دیا کہ جس کی سند صرف انکے پاس ہو سکتی ہے....
اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی
اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی
جیسے کسی نے کہا ہے....ع
دل کی آنکھیں کھول اوبابا دل کی آنکھیں کھول
تو اسی کے ہم معنی یہ کہا جا سکتا ہے پرویز رشید صاحب جیسے عالی دماغ سے کہ دل کی عینک لگوا اوبابا دل کی عینک لگوا اوبابا!
چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ایک پاکستانی سیاست دان کی ٹورنٹو ہوائی اڈے پر تلاشی کا نوٹس لیتے اور قومی غیرت کی آواز بلند کرتے ہوئے کہتے کہ اب ہم بھی نہایت ادب کے ساتھ اپنے معزز امریکی مہمانوں سے اسی طرح کا سلوک کرینگے جیسے ہمارے ایک پاکستانی بھائی سے روا رکھا گیا۔ یہ بھارت بھی کر چکا ہے اور اب تک اسے دوبارہ بھونڈی پوچھ گچھ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مک مکا کا لفظ سیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ اسے غلط مقام پر استعمال کیا جائے‘ بہرحال پرویز رشید اچھے انسان ہیں اور مسلم لیگ نون کا مان تران ہیں۔ وہ اچھے اچھے وزنی اور معنی خیز بیان دیتے ہیں۔ یہ برعکس معاملہ پہلا واقعہ ہے‘ اس لئے کوئی بات نہیں۔
٭....٭....٭....٭
لندن کے ایک بچے کو ”میاﺅں میاﺅں“ پسند نہیں‘ یہ آواز بالعموم اسکی امی نکالتی ہے تو وہ رونے لگتا ہے۔ البتہ کتے کی آواز پر خاموش ہو جاتا ہے۔
یہ بڑا پیچیدہ قسم کا معصومانہ کیس ہے‘ لگتا ہے بچے کو بلیوں اور انکی آواز سے کوئی نفرت نہیں مگر والدہ کا میاﺅں میاﺅں کرنا پسند نہیں کیونکہ وہ سُر میں یہ آواز نہیں نکالتیں اور بچہ ممکن ہے پیدائشی موسیقار ہو اور سُرتان کی پہچان رکھتا ہو۔ ماں کیسی عظیم ہستی ہے کہ بچے کی پریشانی دور کرنے کیلئے وہ بلی کتے کی آواز بھی نکالنی پڑے تو نکال لیتی ہے۔ بالعموم ماں کی لوری ہر تمدن میں ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے جس کی میٹھی سرسراہٹ اور گنگناہٹ ساری زندگی اولاد کے کانوں میں گونجتی ہے اور وہ کرب کے لمحوں میں اس یاد سے بھی بہل جاتا ہے۔
بچہ اپنے باپ کے ساتھ محتاط اور ماں کے ساتھ فرینک ہوتا ہے‘ بیٹے دل کا راز اپنی ماں کو بتاتے ہیں اور بیٹیاں ماں کی سہلیاں ہوتی ہیں اور باپ ان سب پر تمبو کی طرح تنا رہتا ہے۔ جو انگلش مدر اپنے بچے کو اپنی آواز میں میاﺅں میاﺅں سناتی ہے‘ اسے براہ راست بلی کی خدمات حاصل کرنا چاہئیں۔ وگرنہ یہ نہ ہو کہ بچے کی حِسِ موسیقی متاثر ہو اور مستقبل کا کوئی بڑا متوقع ماہرِ موسیقی ضائع ہو جائے۔ بلی کی میاﺅں میاﺅں پر کبھی کسی نے غور نہیں کیا‘ اسکی لے کاری میں بڑی ملائم نزاکت ہوتی ہے اور براہ راست انسانی اعصاب کا تناﺅ کم کرتی ہے جبکہ کتا بھی بھونکے تو وہ سُر میں بھونکتا ہے‘ لندن کی ماں کو کسی ماہر موسیقی کو آڈیشن دے دینا چاہیے کہ کہاں سُر غلط لگ جاتا ہے۔
٭....٭....٭....٭
ق لیگ پنجاب نے فتویٰ جاری کیا ہے کہ بار بار پارٹیاں بدلنے والے مانیکا خود سیاسی لومڑ ہیں۔
کہتے ہیں گونگے کی رمزیں اسکی ماں ہی جانتی ہے‘ ق لیگ اور عطا مانیکا کا رشتہ تو رہا ہے مگر رشتوں میں طلاق‘ حلالے وغیرہ تو ہوا کرتے ہیں اس لئے اگر وہ پارٹیاں بدلتے ہیں تو ممکن ہے وہ سیاسی کثرت ازدواج کے شوقین ہوں اور اگر وہ اسکی استطاعت رکھتے ہیں تو لومڑ خاندان کو انہیں لومڑ کہنے کا کیا حق حاصل ہے البتہ مسلم لیگ ق نے انکے سیاسی قوما میں جانے کی جو تشخیص کی ہے‘ وہ درست معلوم ہوتی ہے اور لومڑ نہایت چالاک اور ہوشیار ہوتا ہے اس لئے تشخیص بھی کوئی بوڑھا لومڑ ہی کر سکتا ہے‘ کیا پتہ وہ انکے سیاسی مرض پر مٹی ڈال دے۔ لومڑ بھی سوچتا ہو گا کہ وہ نہ صرف انسان تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ سیاست دان بھی مان لیا گیا ہے۔ اگر کسی نے مشہور کتاب کلیلہ و دمنہ پڑھی ہو تو وہ جانتا ہو گا کہ لومڑ جنگل کے سیاسی نظام میں شیر کا مشیر خاص ہوتا ہے اور شیر کوئی قدم اسکے مشورے کے بغیر نہیں اٹھاتا۔ مشرف نے بھی‘ اگرچہ وہ شیر نہیں تھا‘ اپنے اردگرد کئی سیاسی لومڑ‘ لگڑبگے اور گیدڑ وغیرہ جمع کر رکھے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سیاسی جنگل میں کوئی بھی جانور کسی وقت کسی اور کا روپ دھار سکتا ہے۔ بہرحال عطا مانیکا کو سیاسی لومڑ کہنا لومڑ کی توہین ہے۔ اس کیلئے ق لیگ کو انکی اشک شوئی کرنی چاہیے۔
٭....٭....٭....٭
چودھری شجاعت حسین کہتے ہیں‘ مسلم لیگ ن سے اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اگر کوئی مسلم لیگ یہ کہے کہ اس کا دوسری مسلم لیگ سے اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو پھر وہ سرے سے مسلم لیگ ہی نہیں رہتی بلکہ ایک سٹپنی ہے جو کسی بھی برسر اقتدار پارٹی کو ضرورت پڑنے پر سٹپنی کا کام دے سکتی ہے اور یہی چودھری صاحبان نے کیا۔ یہ انکی سیاست کا فارمولا ہے‘ جو آمر مشرف کو دس بار صدر بنانے کیلئے بھی استعمال کرکے اقتدار میں اِن رہی ہے۔ اگر لیگیں قائداعظم کی ایک لیگ نہیں بن سکتیں تو پھر وہ اپنا کوئی اور اچھا سا نام رکھ لیں۔ بابائے قوم کی روح پر بار کیوں بنتی ہیں۔ کواکب بتا رہے ہیں کہ آنیوالے انتخابات کیا خبر دے رہے ہیں‘ اس لئے پیپلز پارٹی کی گاڑی سے سٹپنی کے پیچ کھولنے شروع کر دینے چاہئیں۔ اس وقت ملک میں مسلم لیگ ن‘ ایک بڑی سیاسی جماعت ہے‘ وہ اقتدار سے کتنی دور ہے اسکی پیمائش سب کو معلوم ہے۔ یہ چودھری صاحب اپنے پاﺅں پر کلہاڑی کیوں چلا رہے ہیں‘ صرف اتنا ہی کہہ دینے ہی میں بچت تھی کہ ہم مسلم لیگ ن سے اتحاد نہیں کر سکتے۔ یہ کہنا کہ سوال ہی نہیںپیدا ہوتا‘ تو پھر پیپلز پارٹی کے آگے دستِ سوال دراز کیوں کیا؟ پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں میں پٹرول بھر رہی ہے‘ مگر اب یہ گاڑیاں چلنے کی نہیں اور جلد ہی یہ استاذ ذوق کو یاد کرکے کہیں گے....
دنیا نے کس کا راہ فنا میں دیا ہے ساتھ
تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے
٭....٭....٭....٭
پیر ‘ 19 ذی الحج 1433ھ 5نومبر2012 ئ
Nov 05, 2012