اسلام آباد میں گریڈ اکیس کے سول افسران سے خطاب کرتے ہوئے چف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ ملک میں حتمی اختیارات کی حامل عدالت ہے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام اداروں اور اتھارٹیز کے اقدامات پر آئین کی بالا دستی اور فوقیت کو قائم رکھیں۔ عدالت عظمی کی بناوٹ ، اختیارات اور دائرہ کار خود آئین میں طے کردہ ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ عدلیہ نہ صرف پرانی غلطیوں کا ازالہ کرتے ہوئےقانون کی حکمرانی کے نظریات قائم کر کے ایک نئی ملکی تاریخ رقم کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ دن گئے جب ملک کا استحکام اور ترقی کا تعین اسلحے، میزائلوں اور ٹینکوں کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ ریاست اپنے شہریوں کو معاشرتی تحفظ اور فلاح اور اُن کے قدرتی اور دیوانی حقوق کے تحفظ
کی ذمہ دار ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قومی اداروں کو چلانے کے لئے ہمیں تربیت یافتہ اور قابل بیوروکریسی کی ضرورت ہے۔ جو سماجی و معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے اور ان سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کیا قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالا دستی کے اصولوں کا اطلاق صحیح معنوں میں ہو رہا ہے؟ کیا ملک کے شہریوں کو نظام پر اعتماد ہے اور کیا موجودہ نظام میں طاقت ہے کہ وہ بد دیانتوں اور منافع خوروں کی حوصلہ شکنی کرے؟ انہوں نے کہا کہ اگر ان تمام سوالات کے جواب ہاں میں ہیں تو قواعد و ضوابط مثبت ہیں اور ملک ترقی کی را پر گامزن ہے۔ اگر جواب نہ میں ہوا تو نظام منتشر ہو جائے گا۔
ٹینکوں اور میزائلوں سے ملکی استحکام کے تعین کے دن گئے۔ اب استحکام آئین کی بالادستی سے ہوگا، سپریم کورٹ کی بناوٹ، اختیارات اور دائرہ کار آئین کے تفویض کردہ ہیں۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری
Nov 05, 2012 | 21:09