وزیراعلیٰ کا کم وسیلہ افراد کیلئے امدادی پیکیج

Nov 05, 2013

ڈاکٹر بلال اسلم صوفی

پاکستان کے طول و عرض میں غربت اور غریب افراد کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بجلی کی ہوش ربا مہنگائی‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ گندم کی قیمت میں گذشتہ 5 سالہ دور میں دوگنا سے زیادہ اضافہ اور پھر پھل فروٹ‘ مصالحہ جات‘ دالوں‘ کپڑوں‘ زرعی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہی غریب افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب ہے اور ان چیزوں کے نرخوں میں اضافے کا سبب حکومت کی نظر میں کچھ اور جبکہ عوام کی نظر میں حکومت ہے۔ پاکستان میں 11 مئی 2013ء کے الیکشن کے نتیجہ میں مسلم لیگ کی حکومت آئی تو اسکی بنیاد عوام کی بے پناہ توقعات ہیں۔ سابقہ حکومت نے جب گندم کا نرخ 625 روپے فی من سے دو تین قسطوں میں بڑھا کر 1200 روپے کیا تو مجھے ایک خاتون وفاقی وزیر سے جا کر بات کرنے کا اتفاق ہوا اور انہیں اس اقدام سے بیدار ہونے والے خطرناک نتائج کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے ہنس کر کہا کہ ہم نے تو صرف دیہی آبادی کے ووٹوں کے لئے یہ سب کیا ہے اور دوسری بات انہوں نے یہ فرمائی کہ ہم ہوں گے تو نتائج کو دیکھیں گے آپ اندازہ کریں تو ان جوابات سے عوام کے بارے میں ان کو غیر سنجیدگی جھلک رہی ہے موجودہ حکومت کے تمام وزرائے اعلیٰ سے پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کی کارکردگی اب بھی سب سے نمایاں ہے مگر مہنگائی اس کارکردگی کو کچھ کچھ نہیں بلکہ بہت زیادہ کم کر رہی ہے۔ انہوں نے سابق دور میں بھی غریب خاندانوں کیلئے بہت کچھ کیا اور دو روپے کی روٹی سکیم کا اجرا کیا۔ بعض لوگوں نے انہیں مشورہ بھی دیا کہ یہ سکیم بہتر ثابت نہیں ہو گی مگر ان کے عوام کیلئے جذبات اور ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے یہ کرکے دکھایا اپوزیشن نے سب سے زیادہ تنقید اس پر کی۔ اب پھر خبر آئی ہے کہ دو روپے کی روٹی کو ساڑھے تین روپے کا کر کے سکیم دوبارہ شروع کرنے کا پروگرام ہے میاں صاحب سے گزارش ہے کہ 15'16 سالوں میں قوم نہیں بدلی افسر نہیں بدلے اور جو بھی اس سکیم سے منسلک ہیں وہ نہیں بدلے تو آپ کس بنیاد پر تندور والوں کو تندوروں کی آگ سے بچا کر آٹے کی بلیک کا راستہ کھول رہے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی ہو گی کہ ایک فیل شاہ سکیم کو پھر سے دوبارہ لاگو کر دیا جائے اور جس طرح بجلی کے نرخ بڑھا کر بدنامی مول لی جا چکی ہے اسی طرح بگڑی ہوئی سکیم کیس بدنام نہ کر دے جہاں تک ان کے کم وسیلہ خاندانوں کے لئے کیش سبسڈی دینے کا پروگرام کا تعلق ہے وہ بظاہر ایک بہتر سکیم ہے مگر اس میں خاندانوں کا تعین شفاف انداز میں کرنے کے لئے فرشتے لانے کی ضرورت ہے اور فرشتے آج کل بہت کم کم نظر آتے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں فی خاندان ماہانہ رقم کا تعین بھی ایک اہمیت کا حامل ہے اگر تو 500 روپے کارڈ کے ذریعے دینے ہیں تو یہ پھر غربت کو کم نہیں کر سکیں گے رقم بڑھانے کی ضرورت کے علاوہ سسٹم کو آسان بنانا بھی بہت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی شفاعیت اور اس میں ممبران قومی اسمبلی کے کردار پر بھی دھبے ہیں اور ایک ایک MNA کئی کارڈ اپنی جیب میں بلکہ گاڑی کی ڈگی میں لئے پھرتے رہے یہاں پر مجھے ایک سابق وزیراعلیٰ کی بات یاد آگئی جس نے مجھے بلا کر پوچھا کہ غریبوں کو سستا آٹا فراہم کرنے کی کوئی سکیم بتائیں میں مودبانہ گزارش کی کہ جناب غریب فیملیز کو شناخت کریں اور شفاف طریقہ سے ان کی فہرست بنائیں چیک چھپوائیں جس پر حکومت پنجاب لکھا ہوا اور رقم 1000 روپیہ فی گھر ہو کوئی پہلے سے طے شدہ سٹور یوٹیلٹی سٹور آٹے کا برانڈ اور آٹے کی مل نہ ہو یعنی کوئی نامزدگی نہ ہو بلکہ ایک غریب جس کے پاس آپ کا چیک ہو وہ کرشن نگر سے اپنے گھر سے سودا سلف لینے کے لئے نکلے وہ کسی بھی دکان پر جائے کسی بھی برانڈ کا آٹا و دیگر یعنی گھر وغیرہ خریدے اور اگر سودا سلف کی قیمت 1600 روپے ہو تو وہ 1000 روپے کا چیک دے جبکہ باقی 600 روپے کیش دے اور دکاندار وہ چیک بنک آف پنجاب سے کش کروائے یہ سادہ سکیم تھی مگر سابق وزیراعلیٰ کہنے لگے ’’کہ ایس ساری سکیم وچ اسی کتھے اہین‘‘ تو میاں شہباز شریف صاحب کیش سبسڈی برائے کم وسیلہ پروگرام سکی یہ شکل میری تجویز جو سابق وزیراعلیٰ کو دی گئی سے ملتی جلتی ضرور ہے مگر جس طرح ہم نے تمام فریقین کو جہاں سے بدعنوانی کا چانس تھا باہر نکال دیا اسی طرح آپ کو بھی اسے سیاسی لوگوں کے حوالے نہیں کرنا چاہئے۔ 15 ارب 90 کروڑ 54 لاکھ کی یہ کیش سبسڈی اگر گھرانوں تک صحیح پہنچ گئی تو اللہ آپ کو اسکی جزا ضرور دے گا اور معاشرہ میں غربت میں غربت میں کمی ہو گی مگر غربت میں کمی کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں آٹا سستا رکھنے کے اور بھی بڑے طریقے ہیں مگر مخصوص لابی نے آپ سے گندم کا اجرائی نرخ 1330 روپے کروا کر وہ کام لیا ہے جس سے انہوں نے یقیناً 25 ارب سے زیادہ منافع کمایا ہے یعنی اتنے سارے غریبوں کو 16' 15 ارب اور چند لوگوں کو مفاد پرستوں کو ذخیرہ اندوزوں کو 25 ارب روپے کا منافع بنانے کا موقع دلوا دیا گیا خیر غلطی ہو سکتی ہے مگر اس کی اصلاح بھی ممکن ہے۔

مزیدخبریں