جموں، جہاں مسلمان آبادی کا تناسب ریاست کے باقی حصوں کے مقابلے میں خاصا کم تھا، تحریک آزادی کشمیر کی بانی و علمبردار جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کا اور اس اعتبار سے ریاست جموں کشمیر میں تحریک پاکستان کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ مسلمانانِ جموں نے نیشنل کانفرنس کے متحدہ ہندو مسلم کشمیری قومیت کے گمراہ کن نعرے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم پر متحدہ اور منظم ہو کر یہ ثابت کر دیاتھا کہ انہیں اسلام اور پاکستان سے بے پناہ اور والہانہ عشق ہے اور ان کا یہ جرم ایسا نہیں تھا جسے ریاست کا ڈوگرہ مہا راجہ اور جموں کے متعصب اور انتہا پسند ہندو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے۔ لہذا نہوں نے مسلمانوں کو انکے اس جرم کی سزا دینے کیلئے ایک انتہائی گھنا¶نی اور بھیانک سازش تیار کی۔
تقسیم برصغیر کا بنیادی تصور، جس کی اساس پر پاکستان معرض وجود میں آیا ، یہ تھا کہ مسلمان ہندو¶ں سے الگ ایک جداگانہ قوم ہیں جن کا دین، تہذیب، معاشرت ، ہر شے ہندو¶ں سے جدا ہے اس لئے انہیں ان کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک ایسا الگ وطن ملنا چاہیے جہاں وہ اپنے دین، تہذیب اور نظام ِ حیات کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ اس اصول کے مطابق یہ طے پایا تھا کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور ہندو اکثریت کے ملحقہ علاقے بھارت میں۔ اس اصول کے سامنے آتے ہی ہندو جو پہلے ہی انتہا پسند اور متشدد تنظیموں ، ہندو مہا سبھا جن سنگھ اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے پلیٹ فارموں پر مننظم ہو کر مسلح ہو چکے تھے، اپنے انتہا پسندانہ فسطائی ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر مسلمانوں کے خلاف میدانِ عمل میں اتر آئے تھے ۔ انہوں نے مشرقی پنجاب" یو۔پی" اور بہار میں محمد عربی ﷺ کے نام لیوا¶ں پر ظلم و استبداد کے وہ پہاڑ توڑے کہ الامان والحفیظ ۔ مسلح اور تربیت یافتہ درندہ صفت ہندو اور سکھ غنڈے جتھوں کی صورت میں منظم ہو کر مسلمانوں کی آبادیوں پر چڑھ دوڑے۔ مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کا سفاکانہ قتل کیا گیا۔ خواتین اسلام کی سرِعام عزتیں لوٹی گئیں۔ کروڑوں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں ہجرت کرکے پاکستان میں پناہ گزین ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔
ریاست جموں و کشمیر کو مسلم غالب اکثریت کا ملحقہ علاقہ ہونے کی وجہ سے تقسیمِ برصغیر کے اصولوں کے مطابق لازمی طور پر پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا، نیز اس لئے بھی کہ تحریک ِ آزادیِ کشمیر اپنے پسِ منظر اور نصب العین کے اعتبار سے ابتدا ہی سے تحریک پاکستان کا ایک حصہ رہی ہے اور تحریک ِ آزادیِ کشمیر کی بانی و علمبردار جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے جسے اس وقت بلاشبہ مسلمانانِ ریاست کی قومی پارلیمنٹ کی حیثیت حاصل تھی، اپنے سالانہ اجلاس مورخہ 19 جولائی 1947ءمیں اتفاق رائے سے ریاست جموں و کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ اسلئے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے تھا لیکن ریاست کا ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ پہلے ہی کانگرس کے ہندو لیڈروں کیساتھ مل کر مسلمانانِ ریاست کے اس ملی فیصلہ کیخلاف ایک مذموم شازش تیار کر چکا تھا۔ اس سازش کیمطابق مہا راجہ نے قیامِ پاکستان کے فوراًبعد پاکستان کیساتھ معاہدہ قائمہ کر کے ریاستی مسلمانوں کو اس مغالطہ میں رکھنے کی کوشش کی کہ وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے رہیں کہ مہا راجہ ریاست کا الحاق پاکستان کیساتھ کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف اس نے کانگریسی لیڈروں کے ایماءپر انتہا پسند ہندو اور سکھ تنظیموں راشٹریہ سیوک سنگھ، ہندومہا سبھا، جن سنگھ اور اکالی دل سے جو قبل ازیں مشرقی پنجاب بہار اوریو۔پی میں خونِ مسلم سے ہولی کھیل چکی تھیں رابطہ قائم کیا، تاکہ مسلمانوں کے قتل عام کا وہ خونیں ڈرامہ جو قبل ازیں ان مقامات پر کھیلا جا چکا تھا اب یہاں دہرایا جائے اور ظاہر ہے کہ اس مقصد کیلئے جموں سے، جہاں مسلمان پہلے ہی اقلیت میں تھے، زیادہ موزوں جگہ کونسی ہو سکتی تھی۔ چنانچہ ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق انتہاءپسند ہندو اور سکھ تنظیموں کے ہزاروں مسلح غنڈوں کو مشرقی پنجاب سے درآمد کیا گیا، اور راشٹریہ سیوک سنگھ کا ہیڈ کوارٹر جموں میں قائم کر کے اسکے زیرِ اہتمام جموں اور گردونواح کے ہندو¶ں کو بھی وسیع پیمانے پر فوجی تربیت دیکر مسلح کیا جانے لگا اور ریاستی اسلحہ خانے کی سات ہزار رائفلیں اور اسلحہ کے دوسرے ذخائر ان میں وسیع پیمانے پر تقسیم کئے گئے۔ ان ساری کاروائیوں کی تکمیل کیساتھ ہی اواخر اکتوبر 1947ءمیں جموں اور گردوپیش کے علاقوں میں مسلمان آبادیوں پر ظلم و استبداد کے ایک نہ ختم ہونیوالے سلسلہ کا آغاز کر دیا گیا۔
جموں کے نواحی علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام:
۷۴۹۱ءمیں جموں شہر اور اس کے مضافات میں مسلمانوں کی مجموعی آبادی ۵ لاکھ کے لگ بھگ تھی اور ان کے قتل عام کا سلسلہ اوائل اکتوبر 1947ءمیں شروع ہو گیاتھا ۔ ابتداگردونواح کے شہروں اور دیہات سانبہ ،رنبیر سنگھ پورہ، میران صاحب وغیرہ کی مسلمان آبادیوں کے قتل و غارت گری سے کی گئی اور انتہاءپسند ہندو اور سکھ تنظیموں کے مسلح غنڈوں نے اکتوبر 1947ءکے اواخر تک جموں و کشمیر کے گردونواح کے شہروں اور دیہات سے نہتے اور بے بس مسلمانوں کا مکمل طور پر صفایا کر دیا۔ اکثریت کو موت کی نیند سلا دیا گیا، جبکہ کچھ لوگ جن کی تعداد بہت تھوڑی تھی، بچ بچا کر انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔
24 اکتوبر1947 کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام اور 27 اکتوبر کو مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے جعلی دستاویزالحاق کو بہانہ بنا کر بھارت کا کشمیر پر تسلط:
پروگرام کیمطابق جموں شہر کے نواحی علاقوں کے فرزندانِ توحید کا صفایا کرنے کے بعد اب ان ہندو اور سکھ فسطائیوں کے قتل و غارت کا اگلا نشانہ جموں شہر کے مسلمان تھے لیکن ابھی وہ انکی طرف پوری توجہ مبذول نہیں کر سکے تھے کہ اس اثناءمیں ایک ایسا غیر معمولی واقعہ رونما ہو گیا۔ جس نے ڈوگرہ مہا راجہ اور دوسرے ہندو اور سکھ غنڈوں کی خون آشامی کے جنون کو انتہا پر پہنچا دیا۔ یہ تاریخ ساز واقعہ 24اکتوبر 1947ءکو وقوع پزیر ہوا جب آزاد حکومت ریاست جموں کشمیر کے قیام نے اصولاً اور عملاً ریاست کے ایک بڑے حصے سے مہا راجہ کی ظالمانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا۔ مہا راجہ کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے قیام کی خبر ملی، تو وہ حواس باختہ ہو کر دو ہی دن بعد 26اکتوبر 1947ءکو ریاست کے دارالحکومت سری نگر سے بھاگ کر جموں پہنچا، وہاں پہنچ کر اس نے مسلمانوں کیخلاف اپنی آتشِ انتقام کو بجھانے کیلئے مسلمانانِ جموں کے وحشیانہ قتل و غارت گری کی اس خون آشام مہم کو جسے اب تک اس کے نائبین جاری رکھے ہوئے تھے، اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسی دوران میں27 اکتوبر1947 کو بھارت نے مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے ایک جعلی دستاویز الحاق کو بہانہ بنا کر ریاست جموں و کشمیر کا جبری الحاق کر دیا، یوں اب مسلمانان جموں کے وحشیانہ قتل عام میں مہاراجہ ہری سنگھ کو بھارت کی سرپرستی بھی حاصل ہو گئی۔
5اور6نومبر1947 کو مسلمانان جموں کے قتل عام کی داستان خونچکاں:
جموں شہر میں مسلمانوں کی آبادی کسی ایک جگہ پر اکھٹی نہیں تھی۔ بلکہ تھوڑے تھوڑے مسلمان شہر کے تقریباً ہر حصہ میں آباد تھے اس لئے مہا راجہ نے اپنے حواریوں کے مشورے سے پروگرام بنایا کہ بجائے اسکے کہ مسلمانوں کو پورے شہر میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل عام کیا جائے۔ مناسب یہ رہے گا کہ ان سب کو ایک ہی مقام پر جمع کر کے ان کا قصہ یکبارگی پاک کر دیا جائے ۔ چنانچہ اس منصوبہ کیمطابق شہر کے تمام حصوں میں منادی کرا دی گئی کہ شہر بھر کے مسلمان مرد، عورتیں اور بچے پریڈ گرا¶نڈ میں جمع ہو جائیں، جہاں سے انہیں لاریوں میں بھر بھر کر سوچیت گڑھ کے راستے پاکستان بھیجا جائیگا۔ اعلان میں اس امر کی یقین دہانی بھی کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو بحفاظت پاکستان پہنچانے کی تمام تر ذمہ داری فوج اور پولیس کی ہو گی۔ لہذا مسلمانوں کے جان و مال کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ چنانچہ شہر بھر کے مسلمان اس امید پر کہ انہیں اپنی آرزو¶ں کے مسکن پاکستان بھیجا جا رہا ہے۔ پریڈ گرا¶نڈ میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ پھر جب مہاراجہ اور اسکے حواریوں کو اس امر کا پوری طرح اطمینان ہو گیا کہ شہر کے تمام مسلمان پریڈ گرا¶نڈ میں جمع ہو چکے ہیں ، تو پہلے تو انکے مکانوں اور دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر انکی حفاظت پر مامور فوج اور پولیس نے ان نہتے اور بے بس مسلمانوں سے انکے پاس موجود ہر شے حتیٰ کہ جسم کے کپڑے اور خواتین کے زیورات تک لوٹ لئے۔
اسکے بعد5 نومبر 1947ءکی صبح کو انہیں لاریوں اور ٹرکوں میں بھر کر کہا گیا کہ اب انہیں سوچیت گڑھ کے راستے سیالکوٹ لے جایا جا رہا ہے ۔ ستر ٹرکوں اور لاریوں کے اس قافلے میں بلا شبہ ہزاروں مسلمان مرد عورتیں اور بچے شامل تھے جب وہ لوگ جموں سے چند میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ کی اوٹ پر پہنچے تو وہاں پروگرام کے مطابق پہلے سے موجود ڈوگرہ فوج اور پولیس کے ہندو¶ں اور سکھ رضاکاروں نے انہیں گھیرے میں لے لیا ، پہلے انکی جوان عورتوں کو چھین لیا اور پھر باقی ماندہ نہتے اور بے بس مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ چنانچہ ہزاروں کے اس قافلے میں سے صرف چند سو افراد زخمی حالت میں گرتے پڑتے سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
دوسرے دن یعنی 6 نومبر 1947ءءکو دوبارہ ہزاروں مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کو لاریوں اور ٹرکوں پر سوار کر کے پاکستان لے جانے کے بہانے اسی مقام پر لے جایا گیا جہاں گزشتہ روز ان کے دوسرے بھائیوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ آج بھی گزشتہ روز کی طرح پہلے ان کی جوان لڑکیوں کو چھین لیا گیا اور پھر ان کا قتل عام شروع کر دیا گیا ۔ اس وحشیانہ قتل عام کے نتیجے میں صرف تین آدمی زخمی حالت میں سرحد عبور کر کے سیالکوٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ .... (جاری)