تھر کے صحراﺅں سے اٹھنے والی پرسوز آواز جب حضرت شہباز قلندر کے مزار پر گونجی تو اس کی مستی نے سارے ملک کو اپنا دیوانہ بنا لیا....
ہائے او ربا نئیں او لگدا دل میرا
سجنا باجھ ہویا ھنیرا
کی پکار نے اہل دل کو اس کی طرف متوجہ کیا اور بہت جلد ریشماں ملک کی ایک نامور لوک گلوکارہ بن گئی اس کی پردرد آواز اور گونج نے اس کی ایک الگ پہچان بنا دی اور اسے موسیقی کے دیوانوں نے ”بلبل صحرا“ کا نام دیا۔ پاکستان کے علاوہ بیرون ملک میں بھی اس کی بڑی پذیرائی ہوئی۔ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے تو ساری رات اس کی محفل موسیقی میں شرکت کی اور اسے بھارتی شہریت کی پیشکش بھی، جو اس غریب مگر خوددار محب وطن فنکارہ نے مسترد کر دی
انہیں موسیقی کی خدمات پر حکومتی اور غیر حکومتی سطح پر بے شمار اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ عمر کے آخری حصے میں وہ گلے کے کینسر کی وجہ سے صاحب فراش رہی اور اس دنیا سے جو حقیقت میں 4 دن کا میلہ ہے سے منہ موڑ کر چلی گئی خود ان کے اپنے گائے ہوئے گیت کے بول کی طرح ....
چار دنا ںدا پیار او ربا
بڑی لمبی جدائی لمبی جدائی
آج وہ ہمیں ایک لمبی جدائی کا داغ دے کر ہم سے بہت دور وہاں چلی گئی ہیں جہاں سے کوئی واپس لوٹ کر نہیں آتا مگر ان کی یاد صدا قائم رہتی ہے۔
٭٭٭٭٭
سپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی کے بھتیجے کی شادی سندھ اسمبلی شادی ہال میں تبدیل
معلوم نہیں سپیکر سندھ اسمبلی نے اس تاریخی بلڈنگ میں شادی کا اہتمام کر کے اپنے بھتیجے کی شادی کو تاریخی بنانے کی کوشش کی ہے یا شادی ہالوں کے اخراجات سے بچنے کے لئے شادی کی تقریب منعقد کی۔
وجہ جو بھی ہو یہ نہایت شرم کی بات ہے کہ انہوں نے اس تاریخی بلڈنگ کے تقدس کی بھی پرواہ نہیں کی، گرچہ قائداعظمؒ و لیاقت علی خانؒ کے بعد ہماری اسمبلیاں تماشہ گھروں میں تبدیل ہوتی رہی ہیں، کبھی یہاں پر منتخب نمائندوں کو اٹھا کر باہر پھینکے جانے کا تماشہ کھیلا گیا، کبھی گالی گلوچ اور ہاتھا پائی جیسے ڈرامہ ایکٹ ہوئے مگر کسی صدر یا وزیراعظم کو بھی یہ جرا¿ت نہ ہو سکی کہ وہ اسمبلی ہال کو شادی گھر میں تبدیل کرے اس لحاظ سے تو سراج درانی واقعی اسم بامسمی نکلے ایسے دل گردے والے تو چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے۔ بلکہ ان کی نقالی میں اب صدر اور وزرائے اعلیٰ یہ گھر شادی ہالز میں تبدیل کر سکتے ہیں۔
یوں وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان کو اور اسمبلی ہالز کو کرائے پہ دے کر معقول معاوضہ کما سکتی ہیں کیونکہ صرف یہی ایک سراج نہیں یہاں ہزاروں ایسے دل والے صاحب ثروت روشن چہرہ لوگ موجود ہیں جو ایک نہیں کئی کئی شادیوں پر یہ عمارتیں کرائے پر حاصل کر کے اپنی انا کو تسکین دے سکتے ہیں۔ کسی اور سے ہو یا نہ ہو چلو اس بہانے سے حکومت کو اچھی خاصی آمدنی ہو سکتی ہے۔ رہی عوام کی خدمت اور قانون سازی کے جھنجھٹ تو ضروری نہیں اسمبلیوں میں یہی کام ہوتے رہیں ویسے بھی ہماری اسمبلیوں میں اب یہ کام ہو ہی کب رہے ہیں۔ ارکان اسمبلی بھی تو بس خرچہ پانی وصول کرنے کے لئے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ویسے اب سراج درانی صاحب کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ تقریب کے بعد اسمبلی میں پھیلا ہوا گند جلد ازجلد صاف بھی کرائیں۔
٭٭٭٭٭
پی آئی اے میں 21 ارب روپے سالانہ کی بچت کا پلان تیار
اگر موجودہ انتظامیہ نے حقیقت میں ایسا کر دکھایا تو یہ واقعی دم توڑتی بستر مرگ پر پڑی اس بیمار فضائی کمپنی کے لئے اکسیر ثابت ہو گا۔ پی آئی اے کبھی ہمارے لئے سرمایہ افتخار تھی اب کاندھے پر اٹھایا بوجھ بن گئی ہے۔ اسے اس حال میں ہماری اپنی حکومتوں نے پہنچایا۔ سفارشی، نااہل اور سیاسی بھرتیوں نے طیاروں سے زیادہ پروفیشنل و نان پروفیشنل عملے کے بوجھ نے بھاری تنخواہ پر رکھے گئے مشیروں نے اور سب سے بڑھ کر نااہل سربراہوں نے اسے تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیا۔ بقول شاعر....
یہ جاں جو کڑی دھوپ میں جلتی رہی برسوں
اوروں کے لئے سایہ دیوار بنی تھی
اس شجر سایہ دار کے نیچے آرام پانے والوں نے جس بری طرح اس کو کاٹا اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان خون چوسنے والی جونکوں نے نہ صرف خود عیاشی کی بلکہ اقربا پروری کی بھی حد کر دی۔ مفت سفر، دورے اور غیر قانونی طریقوں سے جائز و ناجائز مراعات حاصل کیں۔
اب نئی انتظامیہ کو اپنوں اور غیروں کو نوازنے والی پالیسیوں پر بھی پابندی لگانی ہو گی تاکہ پی آئی اے کی لوٹ سیل رک سکے اور یہ ادارہ کوڑیوں کے مول نہ بکے۔ کم از کم انسان جس تھال میں کھاتا ہو اس میں تو چھید نہ کرے۔ اگر موجودہ انتظامیہ بھی پرانے انداز میں کام کرتی رہی اللے تللے غیر ضروری امور پر اخراجات قابو نہ کئے تو 21 ارب تو کجا 21 روپے کی بھی بچت کا پلان کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ٹیکنیکل و نان ٹیکنیکل کام چوروں کی فوج ظفر موج اور غیر ضروری عملے کو فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ شاہانہ اخراجات اور بھاری بھرکم معاوضے والے مشیروں اور افسران سے بھی نجات ضروری ہے۔ جب تک یہ سوراخ بند نہیں ہوں گے پی آئی اے کی حالت بہتر نہیں ہو گی۔
٭٭٭٭٭