امریکہ نے پاکستان کا یہ موقف مسترد کردیا ہے کہ حکیم اللہ محسود پر ڈرون حملہ امن کوششوں کا قتل ہے اور کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، تحریک طالبان القاعدہ کے ساتھ امریکہ کیخلاف کئی حملوں میں ملوث رہی، متعدد مرتبہ امریکہ پر حملے کی دھمکی دے چکی ہے، ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کے مارے جانے سے مذاکرات پر کتنا اثر پڑا ہے، اس بارے میں پاکستان ہی سے پوچھا جائے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں دونوں ممالک کے مفادات مشترکہ ہیں۔ امریکہ خطے میں امن کے قیام کیلئے پاکستان کیساتھ تعاون جاری رکھے گا۔ امریکی دفتر خارجہ کے اعلیٰ افسر نے ڈرون حملے اور حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر امریکی سفیر رچرڈ اولسن کی دفتر خارجہ طلبی کی تصدیق کی تاہم پاکستان کی جانب سے بھیجے گئے احتجاجی مراسلے اور چودھری نثار کی تنقید پر تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے ٹی ٹی پی کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے تاہم اسکے باوجود امریکہ سمجھتا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات حکومت پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے ۔دریں اثناءقاہرہ پہنچنے پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ اہم طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت طالبان کیلئے بہت بڑا دھچکا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں سے امریکہ کو اہم کامیابیاں ملی ہیں اور آنےوالے دنوںمیں مزید کامیابیاں ملنے کی توقع ہے‘ اس کا مطلب ہے پاکستان پر ڈرون حملے جاری رہیں گے‘ پوری قوم کے احتجاج کے باوجود!
پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کی خواہش پر اسکے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا جس کی پاداش میں حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ اس جنگ کے شعلوں نے پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ نائن الیون کے کچھ عرصہ بعد تک پاکستان دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے تعاون کرتا رہا‘ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اس جنگ میں پوری طرح ملوث ہو چکا ہے۔ اس جنگ میں پاک فوج کے پانچ ہزار سے زائد افسران اور جوان شہید ہو چکے ہیں۔ سویلینز کی اموات کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ ہے۔ آج پاکستان کی حدود کے اندر پاک فوج جو جنگ لڑ رہی ہے‘ اس کا آغاز جیسے بھی ہوا‘ آج یہ پاکستان کی جنگ بن چکی ہے جس کے سبب وطن عزیز دہشت گردی کا شکار اور کوئی بھی پاکستانی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ بے شک قوم بہت سے ایشوز پر تقسیم ہے‘ سیاسی جماعتوں کے اندر اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے‘ عسکری اور حکومتی قیادت کی رائے میں کسی ایشو پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر دہشت گردی سے نجات کیلئے دو رائے نہیں۔ ہر جماعت طبقہ اور حلقہ بشمول سیاسی لیڈر شپ اور فوج دہشت گردی سے خلاصی کی خواہش رکھتا ہے۔ پاک فوج فاٹا میں شدت پسندوں کیخلاف ایک دہائی سے برسر پیکار ہے۔ فریقین اپنی اپنی کامیابی کے دعوے کرتے رہتے ہیں۔ حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو کسی بھی فریق کی کامیابی اور ناکامی پاکستان اور پاکستانیوں کے نقصان پر منتج ہوتی ہے۔
مشرف اور زرداری حکومتوں نے دہشت گردوں سے جان چھڑانے کیلئے شدت پسندوں کیخلاف آپریشنز کو آپشن سمجھا اور اسی حکمت عملی کو بروئے کار لایا جاتا رہا۔ نوازشریف حکومت نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کو دہشت گردی کے خاتمہ کی کلید قرار دیتے ہوئے ان کو مذاکرات کی دعوت دی۔ پاک فوج کے اس جنگ میں ہزاروں سپوت شہید ہوئے‘ اس نے بھی حکومت کی حکمت عملی کو کامیاب بنانے کیلئے مذاکرات کی حمایت کی۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پارلیمنٹ کے اندر کی جماعتوں میں بھی مذاکرات پر اتفاق رائے پایا گیا۔ طالبان کبھی مذاکرات کا خیرمقدم کرتے اور کبھی ایسی شرائط پیش کردیتے کہ مذاکرات کا انعقاد ناممکن نظر آتا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے طالبان کو دفتر فراہم کرنے کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔ عمران خان نے یہ بھی کہاکہ اگر مذاکرات کے دوران ڈرون حملہ ہوا تو وہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں نیٹو سپلائی بند کر دینگے‘ جہاں انکی پارٹی کی حکومت ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کہتے ہیں کہ انہوں نے امریکی سفیر رچرڈ اولسن سے مذاکرات کے دوران ڈرون حملے بند کرنے کی بات کی تھی‘ اس پر اولسن نے اتفاق کیا تاہم یہ کہا کہ حکیم اللہ محسود نظر آیا تو اس کو نہیں چھوڑیں گے۔ اسکے بعد وزیر داخلہ نے جو کچھ بھی کہا ہو گا‘اس سے قطع نظر حکومت کو اولسن کے جواب کو سنجیدہ لینا چاہیے تھا۔ اولسن کے کہنے پر عمل ہوا اور امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو پاکستان کی مشکلات اور ان میں مزید اضافے کا ادراک کئے بغیر عین اس وقت ڈرون حملے میں مار ڈالا‘ جب مذاکراتی عمل شروع ہوا چاہتا تھا۔ مذاکرات کا نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا تھا‘ کامیابی کی صورت میں دہشت گردی کے خاتمے کا امکان معمولی تھا۔ ڈرون حملے سے مذاکرات کا ممکنہ عمل سبوتاژ ہوا اور وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ڈرون حملہ امن کوششوں کا قتل ہے۔
امریکہ کے اپنے مفادات اس کیلئے بجا‘ اسے پاکستان کے مفادات کا احساس بھی ہونا چاہیے۔ ڈرون حملوں پر حکومت پاکستان رسمی احتجاج کرتی آئی ہے لیکن حکیم اللہ محسوود پر حملے میں حکومتی سطح پر جہاں اشتعال پایا جاتا ہے‘ وہیں حکمران بے بسی کی تصویر بنے بھی نظر آتے ہیں۔ اس ڈرون حملے کی ٹائمنگ پاکستان کے نقطہ نظر سے غلط تھی۔ دہشت گردی میں اب مزید اضافے کے خدشات سر اٹھا رہے ہیں۔ بقول امریکہ طالبان سے مذاکرات پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘ لیکن مذاکرات جس آفت سے نجات کیلئے ہو رہے تھے‘ اس کا براہ راست تعلق امریکہ اور اسکی افغانستان پر یلغار سے ہے۔ کیری نے ڈرون حملوں کو اہم کامیابیوں سے تعبیر کیا اور ایسی ہی مزید کامیابیاں حاصل ہونے کی توقع ظاہر کی ہے۔ لیکن یہ سب پاکستان کے امن کی قیمت پر ہوں تو اس پر امریکہ کا اطمینان کیا پاکستان سے خیرخواہی کا مظہر ہو گا؟
پاکستان میں وسیع سطح پر ڈرون حملوں کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ حکومت امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو دشمنی میں بدلنے کے خدشات کے باعث اس آپشن کو استعمال کرنے سے گریزاں ہے۔ شاید حکمران امریکہ سے دشمنی افورڈ نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف شدت پسند پاکستان کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر وہ سیخ پا کالعدم تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ترجمان طالبان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ حکومت نے امریکہ سے حکیم اللہ محسود کی براہ راست سودے بازی کیہے ایسے امریکی غلاموں سے مذاکرات ممکن نہیں۔ طالبان مذاکرات کا انتظار کر رہے تھے لیکن حکومت نے ہمیں حکیم اللہ محسود کی نعش کا تحفہ دیا ہے۔ آج پاکستان‘ امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک سینڈوچ بن کر رہ گیا ہے۔
تحریک انصاف نیٹو سپلائی بند کرنے کیلئے سرگرم ہے۔ عمران خان کے بیانات سے لگتا ہے نیٹو سپلائی آج بند ہوئی اور ابھی بند ہوئی جبکہ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کہتے ہیں کہ نیٹو سپلائی روکنے کا فیصلہ سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے کرینگے۔ قانونی طور پر صرف وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرنے کی اہل ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ پھر اہم ہے کہ کیا حکومت کو دیگر ڈرون حملوں پر اسی طرح اعتراض ہے جس طرح حکیم اللہ محسود پر حملے کا تھا؟ امیر جماعت اسلامی نے تو اس حد تک بیان دیتے ہوئے کالعدم تنظیم اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کو ”شہید“ قرار دے دیا ہے۔ پچھلی مرتبہ 26 فوجیوں کے سلالہ چیک پوسٹ پر شہید ہونے کے نتیجہ میں نیٹو سپلائی بند کی گئی۔ اس مرتبہ اس کا مطالبہ ایک دہشت گردکی ہلاکت پر کیا جا رہا ہے۔ ڈرون حملوں کی مخالفت اپنی جگہ بجا ہے اور کالعدم تحریک طالبان کی مخالفت اپنی جگہ۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکیم اللہ کی ہلاکت کے بعد حکومت دشمن کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتی ہے یا اسکے ایک بار پھر منظم ہونے کا انتظار کرتی ہے۔ امریکہ سے ڈرون رکوانے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ‘ پاکستان اپنی زمین پر موجود دشمنوں سے نمٹنے کیلئے بھی تیاری پکڑے اور یہ فیصلہ بھی کرے کہ امریکہ دوست ہے یا دشمن‘ یا دوست نما دشمن؟