ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ 1857ء کے بعد اپنی قوم کے زوال اور انگریز کی غلامی میں جکڑے ماحول کے اسباب اور وجوہات کو جاننے کی تڑپ قیام پاکستان سے پہلے کی نسلوں میں آج سے کہیں زیادہ شدید تھی۔ ذہنوں میں کھلبلی مچاتے سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کے لئے تاریخ کا نئے سرے سے جائزہ لینا شاید اس نسل کے لئے اس لئے بھی آسان تھا کہ عربی اور فارسی زبانیں بچپن سے پڑھائی جاتی تھیں۔ ان زبانوں کے قواعد اور گہرائیوں کو سکھانے کے لئے تقریباََ ہر محلے میں گروقسم کے بزرگ موجود تھے جو بغیر کسی صلے اور ستائش کے رہ نمائی کے لئے ہر وقت دستیاب ہوتے۔
سرسید سے لے کر مولانا آزاد اور علامہ اقبال تک کے دانشوروں کا ایک نمایاں وصف غیر ممالک جاکر وہاں کی تاریخ اور حالاتِ حاضرہ کا بذات خود جائزہ لینا بھی تھا۔ مقامی اور بیرونی سفر ان دنوں بہت آسان ہوگیا ہے۔ ہزار ہا لوگ صرف کاروبار ہی نہیں سیروتفریح کے لئے بھی ہر سال بہت سارے ملکوں میں جاتے ہیں۔ منزل ان کی مگر دبئی کے مال ہوتے ہیں یا یورپ کے کیسینو وغیرہ۔ مجھے شبہ ہے کہ آج کا کوئی اُردو شاعر مسجد قرطبہ جائے تو ویسی ہی شاندار نظم لکھ پائے گا جو اقبال کے دل پر معجزے کی صورت اُتری تھی۔
ہمارے صحافی اور دانشور حضرات غیر ممالک کے دوروں پر تواتر کے ساتھ جاتے رہتے ہیں۔ ایک دو حضرات کو چھوڑ کر زیادہ تر کو میں نے حکومتی خرچ پر ہی سفر کرتے پایا۔ ایک بڑی تعداد عالمی NGOsکی طرف سے منعقد کردہ ورکشاپس میں شرکت کے لئے بھی دستیاب رہتی ہے۔ پھر ایک گروہ ہے چند نامور کالم نگاروں کا جنہیں اُردو زبان سے محبت کرنے والے مختلف النوع کانفرنسوں اور مشاعروں میں شرکت کے لئے دُنیا بھر کے شہروں سے مدعو کیا کرتے ہیں۔ اپنے سفر سے لوٹنے کے بعد ایسے کالم نگار ان ممالک یا شہروں کی تاریخ اور حالاتِ حاضرہ کا تذکرہ بس سرسری انداز میں بیان کردیتے ہیں۔ زیادہ وقت میزبانوں کی مدح میں صرف کردیا جاتا ہے۔
تمہید لمبی ہوگئی۔ میراآج کا موضوع ہے ترکی۔ اس صدی کی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی پاکستان اورترکی کی حکومتوں کے درمیان سیاسی اور معاشی روابط مختلف جہتوں میں پھیل کر بہت گہرے ہوتے چلے آرہے ہیں۔
ترکی اپنے تئیں شاندار تاریخ والا ملک ہی نہیں اتاترک کے دور سے ’’ مردِ بیمار‘‘ بن کر بستر پر لیٹ جانے کو ہرگز تیار نہیں۔ اس ملک کی ثقافت، سیاست اور ادب بہت جاندار ہیں۔ ان کا بغور مطالعہ ہمیں جدید دور میں پاکستان کو درپیش بحرانوں کو سمجھنے کے لئے بھی بہت کارآمد ہوسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سنجیدگی سے ایسی کوشش مگر ہوتی نظر نہیں آرہی۔
نئے زمانے کے چیلنجوں سے نبردآزما ہونے کے لئے ترکی میں جاری کش مکش پر اگر غور کررہے ہیں تو امریکہ اور یورپ کے چند دانشور اورصحافی۔ اس ملک کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہوئے وہ کچھ ایسے خیالات بھی کشید کررہے ہیں جو ترکی کے حالاتِ حاضرہ میں سے کچھ ایسی مثالیں سامنے لاتے ہیں جو کئی حوالوں سے پاکستان ایسے ممالک کے اندر موجود ہیجان اور کھلبلی کو سمجھنا آسان کردیتے ہیں۔
ہمای طرح ترکی بھی بار ہا فوجی آمریتوں کا شکار رہا ہے۔ وہاں مذہبی اور لبرل حلقوں میں چپقلش بھی بہت شدید رہی۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی خواہشات کو پورا کرنا وہاں کی حکومتوں کے لئے بھی تقریباََ ناممکن نظر آرہا ہے۔ بالآخر 2003ء میں وہاں ابھرے رجب اردوان اور ان کی جسٹس پارٹی۔ ان کی قیادت میں ترکی ایک جاندار معیشت کی طفیل مستحکم اور عالمی تناظر میں بڑا اثر رکھنے والا ملک نظر آنا شروع ہوگیا۔ کئی لوگوں نے اردوان اور اس کی جماعت کی کامیابیوں میں بلکہ خلافت عثمانیہ سے وابستہ عظمتِ رفتہ کی نشانیاں بھی ڈھونڈنکالیں۔
سب اچھا دِکھتے کے پس منظر میں لیکن بتدریج حقیقت یہ کھل کر سامنے آنے لگی رجب اردوان کی صورت ترکی میں ایک نیا ’’دیدہ ور‘‘ ابھرنا شروع ہوگیا ہے جو اپنے سیاسی مخالفین حتیٰ کہ اپنی ہی جماعت میں موجود اس کا متبادل بن جانے کے امکانات رکھنے والوں کو بھی بہت بے رحمی سے کچلتا ہوا صرف ایک فرد کی حکمرانی کی طرف بڑھ رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل اردوان نے وزارتِ عظمیٰ چھوڑ کر ایوانِ صدر کارُخ کیا۔ صدر ترکی میں بھی ایک نمائشی عہدہ ہوا کرتا ہے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ اس سال 26جون کو ہوئے انتخابات کے ذریعے اردوان ایک ایسی مقننہ لانے کی کوشش کررہا ہے جو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے صدر کو اس ملک کا سب سے بااختیار فرد بنادے گی۔
26جون کو جو انتخاب ہوئے ان کی بدولت اردوان کے حامیوں کو لیکن سادہ اکثریت بھی نہ مل پائی۔ بالآخر وہ نئے انتخابات کروانے پر مجبور ہوا اور اب اس کی جماعت کو ترکی کی مقننہ میں واضح اکثریت مل گئی ہے اگرچہ یہ اکثریت ابھی بھی آئین میں ترمیم کو یقینی نہیں بناسکتا۔
دُنیا بھر میں ترکی کے حالات پر نگاہ رکھنے والے لکھاری یہ دریافت کرنے کو بہت بے قرار ہیں کہ جون اور اکتوبر کے درمیان اردوان نے کیا نسخے استعمال کئے جنہوں نے چار ماہ کے مختصر عرصے میں ترکی کی رائے عامہ کو حیرت انگیز طورپر بدل ڈالا۔ مضامین کا ایک طومار ہے جس میں توجیہات ہی توجیہات ہیں۔
میرے لئے چشم کشا مگر تجزیہ تھا نیویارک ٹائمز کے کالم نگار Roger Cohenکا جو منگل کے روز شائع ہوا۔ اردوان کے استعمال کردہ نسخے کو اس نے بڑے منفی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کے تجزیے سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ایک نتیجہ مگر اس نے نکالا ہے جو پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے بعد مجھے تو پاکستان کے لئے لکھا محسوس ہوا۔
راجرکوہن کا اصرار ہے کہ اس صدی میں ’’آمرانہ جمہوریت(Authoritarian Democracy)کی ایک عجیب سی صنف کئی ممالک میں متعارف ہوکر پروان چڑھ رہی ہے۔ جنونی قوم پرستی کو بڑی مہارت سے استعمال کرتے ہوئے چند سیاستدان مقامی میڈیا پر مکمل کنٹرول کے ذریعے سیاسی مباحث کو چند فروعی معاملات تک محدود کردیتے ہیں۔ آئین اور قانون کے تقاضوں کی قطعی پرواہ نہیں کرتے مگر ووٹ کی طاقت سے منتخب ہوکر ’’جمہوری‘‘ نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی متعارف کردہ جمہوریت اپنی سرشت میں قطعاََ کھوکھلی ہے۔ اس کا بظاہر دفاع ہے تو صرف اتنا کہ وہاں کی فوج کسی Coupکے ذریعے اقتدار پر قابض ہوئی نظر نہیں آتی۔ دکھانے کو ریاستی معاملات صرف ایک ’’منتخب‘‘ فرد ہی چلارہا ہوتا ہے۔
’’دیدہ ور‘‘ کی تلاش تو ہمارے ہاں بھی کئی مہینوں سے جاری ہے۔ ممکنہ دیدہ وروں نے مگر قدم آگے نہیں بڑھایا۔ صرف Apexکمیٹیاں بنائی ہیں۔ بھارت، امریکہ اور افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کا حق اپنے پاس رکھا ہوا ہے۔ بدعنوانی ہو یا دہشت گردی، ان کے خلاف جنگ بھی وہ ہی لڑتے نظر آرہے ہیں۔ پاکستان مگر دیکھنے کو اب بھی ایک جمہوری مملکت ہے جہاں نوازشریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں۔ یہاں کی قومی اور صوبائی اسمبلیاں بھی منتخب ہیں اور اب بلدیاتی انتخاب بھی ہوگئے ہیں۔
خلقِ خدا کو اختیار دینے اور میڈیا میں بنیادی مسائل پر جاندار سوالات اٹھانے والی جمہوریت مگر نظر نہیں آرہی۔ ان دنوں تو ویسے بھی ساری توجہ ایک شادی اور طلاق سے جڑے معاملات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔