لاہور (احسان شوکت سے) سندر انڈسٹریل اسٹیٹ میں فیکٹری کی چار منزلہ عمارت کے زمین بوس ہونے سے جہاں اندر دبے مزید درجنوں افراد کی ہلاکتوں کا اندیشہ ہے تو دوسری طرف وہاں انتہائی کربناک اور دلخراش مناظر اور حکومتی اداروں کی انتہائی ناقص و مایوس کن کارکردگی دیکھنے میں آئی۔ اعلیٰ حکومتی و سرکاری شخصیات وہاں موجود تو تھیں مگر اتنے بڑے تین لینٹر اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے حوالے سے وہ خود مایوسی کی تصویر بنے ہوئے تھے اور انہیں خود سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں! جس پر انہیں مدد کیلئے فوج طلب کرنا پڑی۔ ملبے تلے دبے افراد کی جانب سے موبائل فون پر باہر اپنے رشتہ داروں کے علاوہ وہاں ملبے تلے سے مدد کیلئے بچوں اور بڑوں کی چیخ و پکار کی آوازیں بھی آتی رہیں۔ لوگ مختلف سوراخ اور چھوٹی چھوٹی ٹنل بنا کر اندر پانی و جوس کی بوتلیں پھینکتے رہے۔ ملبے سے لوگوں کے رونے اور کراہنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں مگر وہاں موجود امدادی ٹیمیں، سرکاری ادارے اور لوگ بے بسی کا نمونہ بنے اور مطلوبہ مشینری نہ ہونے پر کرب میں مبتلا نظر آئے۔ ملبے تلے سے نکلنے والے زخمیوں کا کہنا تھا کہ جس وقت لینٹر گرا اندر دو سے ڈھائی سو لوگ موجود تھے جس پر اتنی بڑی تعداد میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کا خطرہ لاحق ہونے پر حکومتی نمائندوں اور سرکاری اداروں کے حکام کے چہروں پر پریشانی نمایاں تھی۔ لوگوں کی بڑی تعداد موقع پر جمع ہو گئی تھی اور امدادی سرگرمیوں میں انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ فوج نے موقع پر پہنچ کر میگافون کے ذریعے لوگوں کو پیچھے ہٹنے کی تنبیہ کی۔ اطلاع ملنے پر فیکٹری میں کام کرنے والے اور دبے مزدوروں کے عزیزواقارب کی بڑی تعداد بھی پہنچ گئی اور وہ دھاڑیں مار کر روتے رہے۔ وہاں ملبے تلے دبے متعدد افراد کے ہاتھ، پاؤں، سر وغیرہ باہر نظر آ رہے تھے جبکہ باقی حصے ملبے تلے دبے تھے۔ ان دلخراش مناظر سے ہر کوئی دکھی تھا۔ مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی موقع پر پہنچ گئی۔ اس سانحہ کے حوالے سے دیکھیں تو انتہائی افسوسناک صورتحال سامنے آتی ہے کہ حکومتی دعوؤں اور ریسکیو اداروں کے حکام کے کارکردگی کے ڈھنڈورا پیٹنے اور بین الاقوامی معیار کی ریسکیو ٹیمیں تیار کرنے کے دعوے حقائق کے بالکل برعکس ہیں کیونکہ جب کوئی ایسا سانحہ رونما ہوتا ہے ان حکام اور اداروں کے دعوؤں اور کارکردگی کی قلعی کھل جاتی ہے۔ اداروں کی غفلت اور ناقص کارکردگی کے باعث یہ سانحہ لاہور کی تاریخ میں عمارت منہدم ہونے سے اتنے بڑے جانی نقصان کی وجہ سے بہت بڑا سانحہ بن گیا۔