زہریلی و آلودہ دھند۔۔۔مستقبل کی خوشبو صاف ہوا!

اک فقرہ کثرت سے بولا اور لکھا جاتا ہے: تاریخ سبق دیتی ہے مگر قدرتی ماحول Environmentکے حوالے سے کہا جاتا ہے۔’’قدرت صرف سزا دیتی ہے‘‘ ۔اس چار پانچ دن سے بادل نما چھائی ہوئی دھند نے اک ہیجان پیدا کررکھا ہے ۔ اکتوبر نومبر کبھی خوشگوار موسم کی علامت تھے جبکہ موسم کی شدت کے اعتبا رسے جون او ردسمبر شاعروں ، لکھاریوں حتیٰ کہ عام آدمی کی زبان پر بطرزِ بدنامی مشہور تھے۔ مگر پہلی مرتبہ ہوا کہ اکتوبرنومبر کے سنگم پرموسمیاتی وحشت اور دہشت طاری ہوگئی ۔ کچھ لوگ اس کو دھند Fogسمجھ کر خوش ہو گئے سرکار کی ترجمانی کرنیو الوں نے اسے رومینٹک موسم کہہ کر لوگوں کو بہلانے کی کوشش کی مگر قارئین یہ قطعاً دھند نہیں ہے ۔ یہ SMOGسموگ ہے یعنی دھویں اور آلودگی والی دھند ۔ اس گدلی دھند کا مرکز عروس البلاد ہیں ۔ شہروں سے کارخانوں کی چمنیاں ، موٹربائیک سے بڑے ٹرکوں تک ٹرانسپورٹ کی شکل میں دھواں چھوڑتی گاڑیاں اور تعمیرات کی وجہ سے ریت ، بجری ، سیمنٹ کا اڑ کر فضاء میں شامل ہونا ، درختوں کی کمی بغیر منصوبہ بندی کے کی جانے والی تعمیرات اس کی بڑی وجوہات ہیں ۔ شہروں کو کبھی صرف گرم جزیرے کہا جاتا تھا یعنی کسی بھی شہر کا درجہ حرارت اپنے ملحقہ دیہی علاقوں سے تین سے چار ڈگری زیادہ ہوتا تھا۔ مگر اب آلودگی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ شہروں کو ’’گرم اور گندے‘‘ جزیرے کہا جا رہا ہے ۔ شہری زندگی میں روزگار، تعلیم ، صحت ،گلیمر اور جھلملاہٹ بھلے بہت زیادہ ہو مگر ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے شہروں کے رہنے والے دیہاتیوں کے مقابلے میں بہت غریب ہیں۔ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ بارہا اور متعدد سیاسی پارٹیاں استعمال کر چکی ہیں مگر اب روٹی ، کپڑا اور مکان کے ساتھ زیادہ شدت سے صاف پانی، صاف ہوا اور صاف زمین کی ضرورت ہے۔ انسان کو جن چیزوں کی ضرورت زندہ رہنے کیلئے ہوتی ہے اس میں خوراک ، پانی ،نینداور ہوا شامل ہیں مگر کتنی عجیب بات ہے کہ خوراک سے زیادہ ضروری نیند ہوتی ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر آپ دو لوگوں کا انتخاب کریں ایک کو سونے نہ دیں اور ایک کو کھانا نہ دیں ، جس کو نیند نہیں ملے گی وہ جلدی مر جائے گامگر ہوا ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر انسان سیکنڈ ہی زندہ رہ سکتا ۔
دنیا میں آلودگی کی ابتدا کارخانے لگانے اور کوئلے کے استعمال سے ہوئی اسی طرح تیل اور گیس توانائی کے ایسے ذرائع ہیں جو ماحول کو لامحالہ طور پر نقصان پہنچاتے ہیں ۔ بجلی کی ایجاد کے بعد بالخصوص پن بجلی یعنی پانی سے بننے والی بجلی اور جدید دور میں سولراور ونڈ انرجی کے ایسے ذرائع ہیں جو مکمل طور پر محفوظ اور ماحول دوست تصور کئے جاتے ہیں تاہم پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں پر ڈیم بنانے کی مخالفت ایک فخر اور اعزاز کے ساتھ کی جاتی ہے ۔
قارئین! اب ہم اپنی نادانیوں سے پیدا کردہ زہریلی دھند جیسی آفت سے بچائو کی تدابیر کی پر نظر ڈالتے ہیں:۔ اس کیلئے پہلا ذکر انرجی پیدا کرنے کے ذرائع کا ہے ۔ جتنی زیادہ بجلی ہم پانی (ڈیم ) ، ہوا اور سولر سے پیدا کریں گے ماحول اتنا ہی صاف رہے گا ۔ دوسرا بڑا اور فوری حل دھواں دینے والی گاڑیوں پر کریک ڈائون ہے ۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سے گزارش ہے کہ دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف ڈینگی کی طرز کا آپریشن کیا جائے ۔ اگلی حفاظتی تدبیر کا تعلق ایسے کچے رستے ہیں جہاں پر ٹریفک رواں دواں رہتی ہے اور دن بھر دھول اڑ کر فضا میں شامل ہوتی ہے ایسے رستوں کو پختہ کیا جائے ، پانی کا چھڑکائو کر دیا جائے یا سردست نومبر کے مہینے کیلئے بند کر دیا جائے۔ ایسی تمام جگہیں جہاں پر نئی عمارتوں کی تعمیر ہو رہی ہوتی ہے وہاں پر ریت پر روزانہ کی بنیادوں پر چھڑکائو کیا جائے بہتر ہے اسے مکمل طور پر ڈھانپ دیا جائے۔ بلاضرورت گھر سے نکلنے سے قطعاً گریز کریں حتیٰ کہ سیر کرنے سے بھی ۔ اسی طرح وہ تمام نوجوان جو ورزش بالخصوص دوڑ لگانے کیلئے کھلے میدانوں میں جاتے ہیں وہ مکمل طور پر اجتناب کریں ۔ جہاں تک ممکن ہو ایسے افراد جو کسی بھی قسم کی بیماری کا شکار ہو ں ، ہو سکے تو ان کو کسی ایسے شہر میں جہاں پر یہ دھند نہ ہو چند ہفتو ں کیلئے منتقل کر دیں۔ اپنے گردو نواح میں لگے ہوئے درختوں کے پتوں پر چھڑکائو کریں تاکہ اس کے پتوں جمی مٹی دور ہو جائے جس سے وہ فضا کو زیا دہ آکسیجن فراہم کر سکیں گے ۔ گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک اور سادہ چشمہ کا استعمال پیدل ، سائیکل اور موٹر سائیکل سوار ہر حال میں کریں۔ اسی طرح اپنے گھر اور ارد گرد ہر وہ جگہ جہاں سے دھول اڑتی ہے پانی کا چھڑکائو کریں اور تہیہ کرلیں کہ مارچ کے مہینے میں بہار کا موسم آتے ہی ایسی جگہوں پر درخت لگا دیں گے کیونکہ درخت مٹی کو اڑنے سے روکتے ہیں اور آپ کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ سب سے اہم بات کاربن ڈائی آکسائیڈ جو کہ اس آلودگی کا باعث ہے یہ اس کو کھا جاتے ہیں۔ کسی ماحولیا ت کے ماہر نے کیا خوب کہا ہے۔’’ درخت شہری زندگی میں ایک دیوتا کی شکل اور درجہ اختیار کر چکے ہیں‘‘ ۔اس صورتحال سے بھلے Panicنہ ہوں مگر Alertضرور رہیں۔ واضح رہے کہ سموگ کا یہ سلسلہ بارش کے بغیر ٹلنے والا نہیں ہے اسلئے لوگ وزیر اعلیٰ پنجاب سے آس لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ڈینگی کی طرز پر خطرناک اس ماحول سے نجات کیلئے مصنوعی بارش کے آلات درآمد عین اس طرح کریں جیسے انہوں نے تناوردرخت ایک سے دوسری جگہ منتقل کرنے کے لئے مشین کا کیا ہے ۔ قارئین میں نے گزشتہ ایک کالم میں لکھا تھا کہ مستقبل کا تیل پانی ہوگا عین اسی طرح موجودہ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ مستقبل میں اگر عوام کو صاف ہوا میسر آئی تو اسے خوشبو کا د رجہ حاصل ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن