موجودہ دور میں معاشی ضروریات کے تحت صنف نازک گھر سے باہر قدم رکھ کر ہر میدان میں مردوں کے شانہ بشانہ آ تو گئی ہیں ،اور اس میں بھی کوئی شک نہیں ،کہ تعلیمی اور انتظامی اداروں سے لیکر عسکری میدان تک ہر شعبہ ہائے زندگی میں خواتین نے خود کو منوا بھی لیا ہے۔ لیکن آج کی بنت حوا بھی بظاہر خو مختار اور آزاد ہونے کے باوجود بھی ابن آدم کی ہراساں کرنے کی ازلی فطرت سے محفوظ نہیں۔اور چار دیواری سے باہر قدم رکھتے ہی حوا کی بیٹی کے چاروں اطراف ایک انجانے خوف کی کیفیت طاری رہتی ہے۔دوران سفر سے لیکر دفاتر تک عورت کو کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی شکل میں ہراساں کرنے کے قبیح فعل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔صنفی بنیاد پر یہ تشدد اس قدر عام ہے کہ اسے عام سی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔رستوں ، بازاروں اور گاڑیوں میں فقرے بازی، چھیڑ چھاڑ اور حتیٰ کے کام کرنے کی جگہ پر مختلف طریقوں سے ہراساں کرنے کے شرمناک واقعات روز کا معمول ہی نہیں، اور بھی کئی حربے خواتین کو ہراساں کرنے کے زمرے میں آتے ہیں۔
اس سلسلے میں مختلف ادوار میں کئی قانون تو بنائے گئے لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے سبب وہ محض کاغذ کے ٹکڑے ہی ثابت ہوئے۔قوانین کے تحت تو ہر ادارے پر لازم ہے کہ ضابطہ اخلاق من و عن اپنے اداروں میں نافذ کریں۔لیکن حقیقتاً ہوتا اس کے برعکس ہے۔ اور اداروں کے حکام بالا مصلحتوں کے تحت اس قبیح جرم کی سزا دینا تو درکنار ،اس پر بات کرنا بھی جرم سمجھتے ہیں جنسی زیادتی کے واقعات اندرون سندھ، پنجاب، یا بلوچستان کے پسماندہ علاقوں میں تو ہوتے ہی ہیں۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں بھی تواتر سے پیش آتے رہتے ہیں۔ خاندان کے افراد یا دفاتر اور کام کی جگہوں پر ساتھی ملازمین اور افسران کے خواتین ملازمین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات عام ہیں۔
یوں تو حوا کی بیٹیاں ہر معاشرے اور طبقے میں جنسی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ تاہم مغرب میں خواتین جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے خلاف آواز اٹھا لیتی ہیں، مگر پاکستان میں بہت سی عورتیں بدنامی کے خوف سے کسی کو شریکِ درد بنانے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔اس کی وجہ ہمارے معاشرے کا دوہرا معیار، پست اقدار اور مردوں کی ذہنی بالادستی ہے۔اگر کوئی بنت حوا اس غیر انسانی سلوک پر اپنی بدنامی کے بعد یا ملازمت سے سبکدوش ہونے کی صورت میںلب کشائی کر لے تو اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
مردوں کی جانب سے عام عورت سے لیکر پڑھی لکھی ، با شعور اور خود مختار خواتین تک کو ہراساں کرنے کے گھٹیا جرم کو تقویت ملنے کے کئی اسباب ہیں۔سب سے بڑا اور اہم سبب تو اس جرم کا کوئی ثبوت نہ ہونا ہے۔ ہمارے سامنے روز جنسی تشدد کے المناک واقعات آتے ہیں۔لیکن بہت کم ایسے مجرم ہوتے ہیں جنہیں سزا ملتی ہے۔ جب جنسی تشدد کے گھناوَنے فعل کے ثبوت مشکل سے ملتے ہیں تو چھیڑ چھاڑ، جملے بازی سے ذہنی اذیت پہنچانا اور دست درازی کے شواہد اور ثبوتوں کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔دوسر ی اہم وجہ ہمارا غلامانہ معاشرتی نظام ہے۔ جس میں سچائی کا ساتھ دینے والوں اور حق سچ کی بات کرنیوالوں کی کوئی جگہ نہیں۔ عموماً خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات سے ارد گرد والے لوگ آگاہ ہوتے ہیں اور انفرادی طور پر اس کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب کوئی بنت حوا ایسے انسانیت سے گرے ہوئے مجرم کی نشاندہی کرتی ہے ،تو انکی گواہی دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔ مرد تو کجا، خواتین بھی بدنامی کے خوف سے اور سخت رد عمل سے خائف ہو کر اپنے لب سینے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔اور یوں اس گھناوَنے جرم میں ملوث مجرم حوا کی بیٹیوں کی آبرو سے کھیلتے رہتے ہیں۔اور جرم سے پردہ اٹھانے والی بیچاری خواتین کو سوائے بدنامیوں کے کچھ بھی نہیں ملتا۔خواتین کو ہراساں کنرے والے مرد کمال ڈھٹائی سے نا صرف اپنے جرم کو چھپا لیتے ہیں۔ بلکہ جرم کی نشاندہی کرنیوالی خواتین کیخلاف محاذ آرائی بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس کے باعث بنت حوا خاموشی سے اس جرم مسلسل کو سہنے پر مجبور ہوتی ہے۔تو پھر اس جرم کو روکنے کا کیا حل ہے۔اس کا جواب بہت مشکل بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ سب سے پہلے تو خواتین کو ہراساں کرنے کے قوانین میں موجود جھول ختم کرنا ہونگے۔ اور اس جرم کو اس کی نوعیت کے مطابق دیکھنا ہوگا۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور مختلف کام کرنے والی جگہوں کے مالکان اور ارباب اختیار کو خواتین کو محفوظ بنانے کیلئے ہر مصلحت سے مبرا ہو کر اقدامات کرنا ہونگے۔ اور اس طرح کے واقعات پر نظر رکھنے کیلئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی سے لیس سیکورٹی کیمرے کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس جرم کا ایک اور پہلو بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر حکومت اور ریاستی ادارے خواتین کو ہراساں کرنے کے جرم کی اطلاع یا شہادت دینے والوں کا نام ہماری معاشرتی اقدار اور روایات کے پیش نظر صیغہ راز میں رکھنے کی قانون سازی کر یں، تو اس غیر انسانی جرم کی نہ صرف با آسانی نشاندہی ممکن ہو پائے گی ، بلکہ شہادتوں اور شواہد کی بنا ء پر اس جرم میں ملوث درندہ صفت انسانوں کے گھناوَنے چہروں سے پردہ چاک ہو گا، اور سزاوَں کے عمل سے معاشرے سے جرم کی بیخ کنی ہو گی۔ جس سے بنت حوا کو انجانے اور ان دیکھے خوف سے چھٹکارا ملے گا اور وہ حقیقی معنوں میں خود کو چار دیواری سے باہر بھی محفوظ تصور کرے گی۔ ورنہ نام نہاد حقوق نسواں کی آزادی کے باوجود انجانے ہاتھ چپکے چپکے وجود زن کو داغ دار کرتے رہیں گے ۔