مطالبات نہ مانے تو جوڈیشل کمشن ، حکومت دونوں نہیں چلیں گے، اگلے سال الیکشن ہو جائے گا: بلاول

گھوٹکی(نامہ نگار + نیوز ایجنسیاں) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ حکمران اقتدار کی لالچ میں اندھے ہو چکے ہیں اپوزیشن کا پانامہ بل منظور کئے بغیر جوڈیشل کمشن آگے نہیں چل سکتا اگر جوڈیشل کمشن نہیں چلے گا تو حکومت بھی نہیں چلے گی،جمہوریت کو بچانے کے لیے شیر کی قربانی ضروری ہے،ملک میں جمہوری اور معاشی انصاف ہونا چاہیے ،مودی سازش کر رہا ہے لیکن وزیر اعظم خاموش ہیں،فوری طور پر وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے، میرے4مطالبات پر فوری عمل کیا جائے ورنہ جو نقصان ہوگا آپ کا ہوگا،سی پیک اور ملک کے بڑے منصوبوں میں جمہوری انصاف ہونا چاہیے، اگر میں نے مائنس ون کا مطالبہ کیا تو تحریک انصاف کا سربراہ شیخ رشید ہوگا، ملک کو قومی یکجہتی کی ضرورت ہے،اپوزیشن کو متحد ہونا پڑیگا، موجودہ حکمرانوں نے کشمیر میںپاکستان کے موقف کو بہت نقصان پہنچایا ہے،پاکستان دنیا میں تنہا ہورہا ہے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے کو تین سال میں ایک وزیر خارجہ نہیں ملا۔ مطالبات نہ مانے تو الیکشن 2017ء میں ہی ہو جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے جمعہ کو ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول نے تقریر کا آغاز نعرہ تکبیر اختتام ہم نعرہ ماریں بھٹو پر کیا۔بلاول نے کہا کہ ہم دیوالی آپ کے ساتھ منانا چاہتے تھے، دیوالی روشنی کی جیت اندھیرے کی ہار ہے، اس سال کوئٹہ سانحہ کی وجہ سے نہیں آسکا، نریندری مودی کو دکھانا چاہتے ہیں کہ اس ملک میں مسلمان، ہندو سب ایک ہیں، ہم لوگوںکو تقسیم نہیں کرتے، ہم امن کی جیت اور نفرت کی ہار چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی کی جدو جہد کی کوئی ایک تاریخ نہیں ، ہم نے ہمیشہ مظلوموں کے لیے جدو جہد کی ہے، کوئٹہ اس وقت سب سے زیادہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، دہشت گرد ہمارے بچوں، جوانوں، مائیں، بہنوں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں لیکن حکومت نے ان حالات پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ،صرف فوٹو سیشن اور بیانات تک محدود ہیں، انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پارلیمانی سیکورٹی کمیٹی کا مطالبہ کرتے ہیں کہ تاکہ وزیر داخلہ نثار کا احتساب کر سکیں۔ انھوں نے کہا کہ میاں صاحب سن رہے ہو اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے لیکن آپ کی حکومتی پالیسی نے قوم کو منتشر کردیا ہے، میاںصاحب یہ ملک ہے کاروبار نہیں ، یہ عوام ہے خرید و فروخت کا کاروبار نہیں، انھوں نے کہا کہ نواز شریف وزیر اعظم ہیں ،بادشاہ نہیں، یہ جمہوریت ہے تخت رائے ونڈ کی بادشاہت نہیں، میں یہ الزام نہیں لگا رہا ہے اور میرا چا چا عمران خان بھی یہ الزام نہیں لگا رہا ،یہ پانامہ پیپرزہے جو دنیا کا سب سے بڑا کرپشن سکینڈل ہے، میاں صاحب آپ نے خود کہا تھا کہ احتساب خود سے شروع ہونا چاہیے، اس لیے آپ کو جواب دینا ہوگا، جمہوری احتساب کے لیے اعتزاز کے بل کو پاس کرنا پڑیگابصورت دیگر جوڈیشل کمیشن نہیں چل سکے گا اور اگر جو ڈیشل کمیشن نہیں چل سکا تو آپ کو خبر دار کردوں کہ آپ کی حکومت بھی نہیں چل سکی، میاں صاحب سی پیک و دیگر منصوبے غیر متنازعہ ہونے چاہیئں۔ سی پیک منصوبہ آصف علی زرداری نے آپ کو تحفہ دیا تھا ، اگر گوادر پورٹ کے لوگوں کے لیے پینے کا پانی بھی نہیں ہے تو وہاں کے لوگوں کو سی پیک کا کیا فائدہ ہوگا، لاہور میں ایک ٹرین پر 200ارب روپے خرچ کیے جاتے ہیں لیکن کراچی کے لیے صرف12ارب روپے دیے جارہے ہیں ،ملتان میں میٹرو بس بن رہی ہے لیکن راجن پور میں ایک ہسپتال بھی نہیں ، آپ نے کبھی تھر کے بارے میں سوچا جہاں قحط ہے، آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ لیکن ایک ٹکہ بھی خرچ نہیں کیا،اگر صرف ایک ہی جگہ پیشہ خرچ کیا گیا تو وفاق کمزور ہو جائیگا،میں وفاق اوراس ملک کو بچانا چاہتا ہوں اور مودی کی سازش ناکام بنانا چاہتاہوں۔ جمہوری اور معاشی انصاف ہونا چاہیے،کشمیر میں جو ظلم ہو رہا ہے آپ اس پر بین الاقوامی کمیونٹی کی حمایت لینے میں ناکام رہے ہیں، دنیا میں پاکستان آپ کی وجہ سے تنہا ہوگیا ہے، مودی سازشیں کر رہا ہے، مطالبہ کرتے ہیں کہ جنگی بنیادوں پر وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے، مودی جیسا شخص اسلامی ممالک میں جلسہ کرتا ہے، بڑے بڑے اعزاز سے نوازا جاتا ہے لیکن دنیا میں کشمیرکے مسئلہ پر پاکستانی موقف کو نظر انداز کیا جاتا ہے ،یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہورہاہے۔ آپ اپنی انا سے آگے نہیں دیکھتے۔ ملک کے ایک نااہل وزیراعظم چلا رہا ہے جو صرف خارجہ پالیسی میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں ناکام ہے،ایک طرف مودی سازش کر رہا ہے لیکن ہمارے وزیر اعظم خاموش ہے۔ سیاسی پارٹیوں کو جلسہ کی اجازت نہیں لیکن کالعدم جماعتوں کے لوگ وزیر داخلہ کے دفتر میں چائے پیتے ہیں، اسلام آباد میں جلسہ کرتے ہیں ،نیشنل ایکشن پلان کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور کافر کافر کے نعرے لگائے جارہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کوئی اقتدار کے لیے اور کوئی اقتدار کو بچانے کے لیے مرا جارہا ہے، کسان مظالم کا شکار ہیں، چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں۔ دوسری طرف میرا چاچا عمران خان میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ عوام نے بہت برداشت کیا ہے ،روزانہ کنٹینر ز پر کھڑے ہو کر الزام لگاتے ہو، میری والدہ شہید بے نظیر پر بھی الزامات لگائے تھے، 18اکتوبر 2007میں ہونے والا دھماکہ کاالزام بھی چا چا نے بے نظیر پر لگانے کی کوشش کی،میرے والد پر نواز شریف پر لگے ہوئے الزام لگاتے ہیں ،نواز شریف نے بھی تسلیم کیا کہ وہ الزامات جھوٹے ہیں اور شہباز شریف اور ججز کے درمیان گفتگو کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے لیکن آپ کو سچ سے فرق نہیں پڑتا، میرے والد کی بات کرتے ہو،لیکن ذرا اپنے باپ اکرام اللہ نیازی کو بھی متعارف کروائو، لوگوں کو بتائوکہ استاد حمید گل اور آپ نے بے نظیر کے خلاف سازش کروائی، عمران چا چا لوگوں کو بتائیں آنکل پاشا نے آپ کی کتنی مدد کی تھی ،میری زبان نہ کھلوائیں،اپو زیشن کو ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا،اگر آپ مائنس ون کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر میں بھی مائنس ون کا مطالبہ کروں گا اور پھر تحریک انصاف کا سربراہ شیخ رشید ہوگا جو آپ سے تو اچھا کام کریگا، یہ سب اقتدار کی لالچ میں اندھے ہوگئے ہیں میں اس لڑائی میں پڑنا نہیں چاہتا، میاں صاحب2014میں جمہوریت کو بچانے کے لیے شیر بچ گیا تھا لیکن اب جمہوریت بچانے کے لیے شیر کی قربانی ضروری ہے، پیپلز پارٹی کی تجاویز پر سینیٹ کا اجلاس ہوا، پیپلز پارٹی سینیٹرز کو کہتا ہوں کہ میرے مطالبات تسلیم ہونے تک سینیٹ سے باہر نہ آئیں، اگر نواز شریف نے پانامہ بل منظور نہ کیا تو ان کو پتہ چل جائیگا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ اگر آپ سب میرا ساتھ دیتے ہیں تو ہم سب مل پاکستان میں تبدیلی لے آئیں گے۔ بلاول نے ڈہرکی میں جلسہ کے اختتام پر نعرے بازی کی۔ جلسہ ڈہرکی میں واقع ہندو برادری کے قدیم ترین مندر پوج رہڑکی صاحب سے متصل بھگت کنور رام پارک میں منعقد ہوا۔ جلسہ کے لئے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ گھوٹکی شہرسے تحصیل ڈہرکی تک جگہ جگہ استقبالیہ کیمپ لگائے گئے تھے۔ اگر ہمارے 4 مطالبات تسلیم نہیں کئے تو پھرانتخابات 2018ء میں نہیں 2017ء میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ازسرنو منظم اور مضبوط ہو رہی ہے، انشاء اللہ آئندہ انتخابات کے بعد چاروں صوبوں میں ہماری حکومت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...