لندن (بی بی سی) سینٹرل جیل سے مبینہ طور پر فرار ہونے والے سٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا یعنی سیمی کے 8کارکنوں کو سب سے پہلے دیکھنے کا دعوی کرنے والے عینی شاہدین چاند پور گاؤں کے نریش پال اور گیان سنگھ نے بی بی سی کو بتایا انہوں نے دیوالی کی اگلی صبح یعنی پیر کو ان افراد کو دیکھا تھا۔ بھوپال سینٹرل جیل اس جگہ سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ پولیس نے دعوی کیا تھا کہ یہ کارکن جیل کی دیوار کو پھلانگ کر فرار ہوئے اور پاس ہی واقع اینٹوں کھیڑی گاؤں میں پولیس نے انھیں قتل کرنے کا دعوی کیا ہے۔کاشتکار نریش پال نے بتایاپیر کی صبح دریا کے پاس کچھ لوگ جاتے ہوئے نظر آئے۔ مجھے لگا یہ لوگ مچھلی پکڑنے آئے ہیں۔ میں نے کافی دور سے ان کو دیکھا تھا۔ اس کے بعد میں جب گھر گیا تو وہاں میں نے ٹی وی پر نیوز میں دیکھا اور مجھے شک ہوا تو میں نے 100 نمبر ڈائل کیا۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس گاؤں کو چاروں طرف سے پولیس والوں نے گھیر رکھا تھا۔ پولیس کو فون کرنے والے گاؤں کے ایک اور شخص گیان سنگھ نے بتایا، میری جب نریش پال سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ صبح یہاں دریا کے کنارے چھ سات لوگ نکلے ہیں۔ بعد میں میں نے بی بی سی نیوز ویب سائٹ پر دیکھا کہ جیل سے سیمی کے آٹھ لوگ فرار ہیں۔ میں نے سوچا کہ ہو سکتا یہی لوگ ہوں۔ اس کے بعد گاؤں کے کچھ اور لوگوں نے بھی ان کو دیکھنے کی بات کہی۔ تب میں نے فوری طور پر پولیس کو فون کر کے بتایا۔ پولیس کو یہاں کا راستہ بتایا اور یہ بھی بتایا کہ یہ مقام کتنی دور ہے۔کھیت میں ہی کام کرنے والے ایک مزدور امرت نے کہا: 'میں صبح آٹھ بجے کھیت میں کام کر رہا تھا۔ وہ آٹھ لوگ تھے۔ انھوں نے صرف جانگیے اور ٹی شرٹس پہن رکھی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں کپڑوں کی گٹھری بھی تھی۔ جب بی بی سی نے پوچھا کہ کیا ان مشتبہ لوگوں کے پاس کسی طرح کے ہتھیار تھے تو اس کے جواب میں امرت نے کہا: 'ہم نے ان لوگوں کے پاس کسی طرح کے ہتھیار یا ڈنڈے وغیرہ نہیں دیکھے۔ جہاں پر یہ مبینہ طور پر انکاؤنٹر ہوا تھا اس گاؤں کے مکھیا موہن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: 'میں نے ان لوگوں کو کافی قریب سے دیکھا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا بھی کہ آپ لوگ کون ہیں۔ ان کے ہاتھ خالی تھے۔اس واقعے کے بعد سے یہاں ماحول سہما ہوا ہے۔ قبل ازیں مدھیہ پردیش کے وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان نے ان آٹھ مسلمانوں کے جیل سے فرار ہونے کے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا۔ دریں اثنا نئی دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری 8 مسلمان نوجوانوں کوجعلی مقابلے میں قتل کرنے پر پھٹ پڑے اور بھارتی پولیس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف شدید اشتعال انگیزی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ معاملے کی تفصیلی انکوائری کرائی جانی چاہئے تاکہ سچائی عوام کے سامنے آ سکے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھارت عجیب نازک دور سے گزر رہا ہے، ہر فرقے اور طبقے کے لوگ ایک عجیب و غریب ذہنی الجھن میں مبتلا ہیں۔ آج بھارتی جمہوریت کے سامنے ملک کے تمام باشندوں کے ساتھ برابری کے سلوک کی پالیسی اپنے، شرافت اور تہذیبی اقدار اور امن و امان کے تعلق سے اہم سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ لاقانونیت، تشدد اور بربریت کی قوتوں کے سامنے سب نے سر جھکا دیا ملک کی زمین بے قصور افراد کے خون سے رنگی جا رہی ہے۔