ہمارے ملک میں اب تک 14بار قومی اسمبلی کی تشکیل ہوئی۔ ٹوٹتی بنتی اسمبلیوں کا کھیل کئی بار مختلف طریقوں سے اپنے انجام کو پہنچتا رہا۔ 10 اگست 1947 کی قومی اسمبلی پہلی اسمبلی ہونا قرار پائی۔ یہ دستور ساز اسمبلی تھی اور اسکا ملک کیلئے ایک عمرانی معاہدہ طے کر کے دستور کی تشکیل تھا۔ اس اسمبلی کے سپیکر یا صدارت کرنے والی شخصیت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح تھے۔ 4 دسمبر 1948ءکو اسی اسمبلی کے سپیکر مقرر ہوئے اور 24 اکتوبر 1954ءتک اپنے عہدے پر متمکن رہے۔ گورنر جنرل غلام محمد نے خوفزدہ ہو کر اسمبلی پر نا اہلی کا الزام لگا کر غیر موثر کر دیا۔ دوسری اسمبلی 28 مئی 1955ءسے 7 اکتوبر 1958ءتک کام کرتی رہی اس دوران 1956ءکا دستور بھی مرتب کر لیا گیا۔ مگر ملک کے پہلے مارشل لاءکے نفاذ کے باعث یہ اسمبلی بھی غیر موثر ہو گئی۔ تیسری اسمبلی 8 جون 1962 سے 12 جون 1965 تک کام کرتی رہی۔ اس اسمبلی کی مدت میں پاکستان کو 1962 کا آئین ملا۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان بن چکے تھے۔ ملک میں صدارتی نظام رائج کر دیا گیا تھا۔ اس اسمبلی کے نصیب میں دو سپیکر آئے پہلے مولوی تمیزالدین جو پہلی اسمبلی کے بھی سپیکر تھے اور دوسرے اے کے ایم فضل القادر چوہدری جن کا انتقال بنگلہ دیش کی جیل میں زہر دینے سے ہوا اور ان کے بڑے صلاح الدین قادر چوہدری جو بنگلہ دیش کے وزیر بھی رہے کو جنگی جرائم کے بارے بنائی گئی نہائت متنازعہ عدالت نے حسینہ واجد کی خواہش پر پھانسی چڑھا دیا۔ یہ تیسری اسمبلی صدر پاکستان نے نئے انتخابات کروانے کےلئے برخاست کی تھی۔ چوتھی اسمبلی 12 جون 1965ءسے 25 مارچ 1969 تک کام کرتی رہی۔ جنرل ایوب خان صدر پاکستان تھے۔ عبدالجبار خان سپیکر قومی اسمبلی ہوا کرتے تھے۔ یہ اسمبلی جنرل یحییٰ خان کے مارشل لاءکے نفاذ کے ساتھ ہی اپنی مدت پوری کر گئی۔ ایوب خان چاہتے تھے کہ اقتدار سپیکر کے حوالہ کر دیا جائے مگر یحییٰ خان نے ایسا کرنے سے انکار کرتے ہوئے مارشل لاءکا اعلان کیا۔ ایوب خان دل کے مریض تو تھے ہی ان پر فالج کا حملہ بھی ہو چکا تھا اور وہ مزید بوجھ اٹھانے کے قابل نہ تھے۔ اگر ایوب خان نے یحییٰ خان کی جگہ صاحبزادہ یعقوب خاں کو کمانڈر انچیف بنایا ہوتا تو ملک دو لخت نہ ہوتا اور نہ ہی اب تک جو سیاسی ہیجان برپا ہے یہ بھی نہ ہوتا۔گو یحییٰ خان نے 1970ءمیں عام انتخابات کروا دیئے مگر اقتدار کو منتقل کرنے سے گریزاں رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بھی گیا اور یحییٰ خان اپنے گھر میں نظر بند کر دیئے گئے۔ پانچویں اسمبلی جو عددی اعتبار سے 50 فیصد سے بھی کم تھی اس نے عبوری آئین کے ساتھ 14 اپریل 1972 کو پہلے صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی زیر صدارت، پھر سپیکر چوہدری فضل الٰہی کی زیر صدارت تقریباً ایک سال تک کام کیا اور فضل الٰہی چوہدری کے صدر بننے کے بعد 9 اگست 1973ءکو صاحبزادہ فاروق علی کی زیر صدارت اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ یہ اسمبلی بھی دستور ساز تھی۔ اس کا کریڈیٹ ہے کہ 1973 کا دستور اس نے منظور کیا اس اسمبلی کو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اگلے انتخابات کرانے کیلئے برخاست کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔
چھٹی اسمبلی اور اسکے انتخابات پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سب سے زیادہ متنازعہ رہے بھٹو کی پھانسی بھی اسی انتخاب کا شاخسانہ تھا۔ مدت کے اعتبار سے بھی اس اسمبلی کی زندگی دنوں میں گنی جا سکتی ہے اس اسمبلی نے 26 مارچ 1977ءکو نہایت غیر معموی سیاسی صورتحال میں کام شروع کیا ملک معراج خالد اس کے سپیکر بنے مگر یہ اسمبلی مارشل لا کا تیسرا شکار بنی جنرل ضیاءالحق نے مارشل لاءنافذ کر دیا تھا۔ یہ مارشل لا 5 جولائی 1977ءسے لے کر 31 دسمبر 1985ءتک جاری رہا۔
ساتویں اسمبلی مارشل لا کے ضابطوں اور متنازعہ ترین ریفرنڈم کے خود ساختہ نتائج کی روشنی میں 20 مارچ 1985 سے لیکر 29 مئی 1988ءتک کام کرتی رہی اس اسمبلی کے بھی دو سپیکر رہے پہلے سپیکر سید فخر امام اور دوسرے موجودہ وزیر خارجہ کے والد خواجہ محمد صفدر جنکو ضیاءالحق نے سپیکر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مجلس شوریٰ جو کہ نامزد مجلس تھی کے صدر ہونے کے باعث خواجہ صدر سپیکر شپ کا انتخاب ہار گئے۔ بعد ازاں فخر امام کیخلاف مارشل لا کیخلاف تحریک استحقاق منظور کرنے کی بنا پر اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے خلاف نا اہلی کا ریفرنس منظور کرنے کی بنا پر تحریک عدم اعتماد منظور کر لی گئی۔ اس اسمبلی کے دوسرے سپیکر چوہدری حامد ناصر چٹھہ منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی کو ایماندار ترین وزیراعظم محمد خان جونیجو کی موجودگی میں ضیاءالحق نے کرپشن کے الزامات لگا کر صدارتی جوابدہی اختیارات کے تحت برخاست کر دیا۔
آٹھویں اسمبلی ضیاءالحق کے طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے کے بعد ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں 30 نومبر 1988 کو معرض وجود میں آئی قائمقام صدر اسحق خان اور آرمی چیف اسلم بیگ پر امریکی دباﺅ تھا کہ بے نظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کیا جائے۔ بے نظیر بھٹو کو مشروط وزیراعظم بننا پسند تھا اور وہ شرائط طے کر کے وزیراعظم بن گئیں یہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ ملک معراج خالد سپیکر بنے اور یہ اسمبلی بے نظیر بھٹو اور انکے شوہر آصف زرداری پر کرپشن کے الزامات کے تحت صدر پاکستان کے صوابدیدی اختیارات کے تحت 6 اگست 1990ءکو برخاست کی گئی صدر اسحق خان نے اسمبلی تحلیل کرنے سے چند گھنٹہ پہلے کہا کہ ہر کام قانون اور آئین کے تحت ہو گا۔ اسمبلی کا تحلیل ہونا بے نظیر بھٹو کے نزدیک ناقابل عمل اقدام تھا۔ سپریم کورٹ نے محمد خان جونیجو کی اسمبلی کی تحلیل غیر آئینی اور بے نظیر کی اسمبلی کی تحلیل آئینی قرار دی تھی۔
نویں اسمبلی 3 نومبر 1990ءکو معرض وجود میں آئی اسکے سپیکر گوہر ایوب خان منتخب ہوئے۔ اسلامی جمہوری اتحاد کے تحت میاں نواز شریف وزیراعظم نامزد ہوئے۔ آرمی چیف آصف جنجوعہ کے وزیراعظم کے ساتھ ورکنگ ریلیشن اچھے نہ رہے۔ انکی تعیناتی میں اصل کردار تو صدر اسحق خان کا تھا مگر وزیراعظم کو اعتماد میں لیا گیا تھا۔ آصف نواز فوت ہوئے اور جنرل وحید کاکڑ آرمی چیف بن گئے۔ یہ تعیناتی بھی صدر نے کی مگر وزیراعظم مطمئن نہ تھے۔ صدر اور وزیراعظم کے درمیان خوشگوار تعلقات بدمزگی اور پھر شدید اختلافات کا شکار ہوئے۔ وزیراعظم نواز شریف نے ایک جارحانہ خطاب کیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ نواز شریف بے نظیر کے ساتھ مل کر صدارتی اختیارات خود حاصل کرنا چاہتے تھے۔ صدر اسحق خان نے جوابی وار کیا اور اسمبلی کرپشن اور دیگر کئی الزامات کی بنا پر تحلیل کر دی۔ سپریم کورٹ نے اسمبلی بحال کی مگر آج کی طرح حکومت منجمد ہو چکی تھی اس اسمبلی کی تحلیل اور بحالی تو ہو گئی مگر چونکہ حکومت چل نہ رہی تھی اور افراتفری تھی اس لئے صدر اور وزیراعظم دونوں کو گھر جانا پڑا۔ ان کی رخصتی آرمی چیف کی مداخلت کے باعث ہوئی۔
دسویں اسمبلی کا نصیب بھی صدارتی حکم کے تحت برخاستگی تھی یہ برخاستگی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں صدارتی صوابدیدی اختیارات کے تحت ہوئی۔ دسویں اسمبلی نے 15 نومبر 1993 کو حلف اٹھایا۔ یوسف رضا گیلانی سپیکر بنے بے نظیر بھٹو دوسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔ صدر فاروق لغاری نے شاہد حامد کے ذریعہ میاں نواز شریف کے ساتھ رابطہ کر کے اپنی ہی جماعت کی وزیراعظم کو نا اہل اور کرپٹ قرار دیکر کرپشن کے الزامات کے باعث آدھی رات کو اسمبلی تحلیل کر دی۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا قتل ان کی برخاستگی سے چند ہفتے پہلے پولیس کے ہاتھوں ان کے گھر کے قریب کراچی میں ہوا تھا۔
گیارھویں اسمبلی کے زمانہ میں بڑے بڑے واقعات ہوئے آئین میں ترامیم ہوئیں۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا۔ وزیراعظم نواز شریف توہین عدالت کے ملزم بنے۔ عدالت میں حاضری دی۔ جنرل جہانگیر کرامت عدالت اور صدر کو بچانے کیلئے میدان میں نہیں آئے مگر انہیں خود استعفیٰ دیکر گھر کی راہ دیکھنا پڑی۔ جسٹس سجاد علیشاہ کو متنازعہ بنایا گیا اور اس کام میں سینئر جسٹس رفیق تارڑ نے کردار ادا کیا۔ عدالت تقسیم ہو گئی مگر نواز شریف وزیراعظم رہے۔ اس اسمبلی نے 15 فروری 1997ءکو حلف اٹھایا۔ الٰہی بخش سومرو سپیکر منتخب ہوئے۔ جہانگیر کرامت کے بعد پرویز مشرف آرمی چیف بنے۔ بالآخر 12 اکتوبر 1999ءجنرل ضیاءالدین بٹ کو آرمی چیف بنانے کی خواہش اور کوشش نے میاں نواز شریف کو معزول کروایا۔ ملک میں مارشل لا لگ گیا۔ نواز شریف فیملی نے عدالت، جیل، جلا وطنی سبھی کچھ دیکھ لیا۔ انکی زندگی بچانے کےلئے بل کلنٹن نے پاکستان کا دورہ کیا۔ بیگم کلثوم نواز نے بہت ہمت اور حوصلہ کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر کے اپنا مقصد حاصل کیا مگر ملک میں پھر مارشل لا نافذ ہو گیا۔ (جاری)
بارھویں اسمبلی ایک بار پھر مارشل لا کے ضابطوں کے تحت مگر سپریم کورٹ کے حکم پر معرض وجود میں آئی۔ اسمبلی میں پہلی بار 60 خواتین رکن بھی منتخب ہوئیں۔ اقلیتوں کی نشستوں کا اجرا ہوا۔ سینٹ اور قومی اسمبلی کے ارکان کی تعداد بھی بڑھائی گئی۔ 16 نومبر 2002ءکو اسمبلی نے حلف اٹھایا چوہدری امیر حسین سپیکر منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی نے بھی تین وزرائے اعظم کو منتخب کیا ایم ایم اے مذہبی جماعتوں کا اتحاد خاطر خواہ نشستوں کے ساتھ ایوان کا حصہ رہا۔ یہ پاکستان کی پہلی اسمبلی تھی جس نے آئین کے تحت اپنی میعاد پوری کی۔ یہ گریجویٹ اسمبلی تھی مگر جعلی ڈگریوں والے بھی گریجویٹ بنے رہے اور مدارس کو بھی بی اے کی ڈگری دینے کا اختیار ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت دیا گیا۔ اسمبلی کی میعاد ختم ہونے سے 12 روز قبل پرویز مشرف نے پھر مارشل لا نافذ کیا۔ وکلا کی تحریک ابھی رکی نہ تھی پھر زور پکڑ گئی۔ انتخابات کےلئے یہ اسمبلی تحلیل ہوئی۔ اس اسمبلی کی مدت کے دوران بے نظیر بھٹو اور پرویز مشرف کی امریکہ، برطانیہ اور امارات کے اصرار پر ایک سمجھوتہ ہوا کہ بے نظیر وزیراعظم اور پرویز مشرف صدر ہوں گے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
تیرھویں اسمبلی نے 16 مارچ 2008ءکو حلف اٹھایا سزا یافتہ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور فہمیدہ مرزا سپیکر منتخب ہوئیں ڈاکٹر فہمیدہ پہلی خاتون سپیکر بنیں۔ اس سے پہلے خاتون ڈپٹی سپیکر تو رہ چکی تھیں حکومت پی پی پی اور میاں نواز شریف کی جماعت نے ملکر بنائی۔ سی او ڈی معاہدہ ابھی زندہ تھا اور پہلی منزل آ گئی تھی پرویز مشرف کو بیرون ملک جانا پڑا۔ آصف زرداری سوئس مقدمات میں استثنیٰ لینے کے لئے صدر بنے خواہش کسی اور کی بھی تھی۔ آئین کی اٹھارہویں ترمیم نے صوبائی خود مختاری کے مسئلہ کو حل کر دیا۔ گو ابھی بھی صوبہ جات اس کی روح کے مطابق کام نہیں کر رہے یہ دوسری اسمبلی تھی جس نے اپنی مدت پوری کی مگر ایک وزیراعظم کو نا اہل قرار دلوا کر اور دوسرے کو منتخب کر کے۔
چودھویں اور موجودہ اسمبلی نے ابھی تک سپیکر کے دو حلف اٹھوائے ایک وزیراعظم کو نا اہل قرار دلوایا، دھرنے ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلی، مقدمہ بازی، ہنگامہ خیزی، دوسرے وزیراعظم کا انتخاب بھی ہو چکا میاں نواز شریف کی حکومت کو پیپلز پارٹی ایوان کے اندر اور باہر سی او ڈی کے تحت کمزور ہونے دے رہی تھی مگر پانامہ انکشافات کے بعد صورتحال کو اپنے ہی دوستوں نے اس نہج پر پہنچایا کہ اب میاں نواز شریف کو اپنی پوری فیملی سمیت عدالتوں کا سامنا ہے آخری فیصلہ کیا ہوتا ہے دیکھیں۔ میری رائے تھی کہ میاں نواز شریف نے اپنی پہلی اسمبلی کے ٹوٹنے سے قبل جو تقریر کی تھی اس کو من و عن اسمبلیوں کی مختصر تاریخ کے ساتھ تحریر کر کے ان کے موجودہ بیانیہ کو بھی ضبط تحریر میں لا کر تجزیہ کروں مگر یہ مختصر تاریخ ہی طویل ہو گئی تاہم اس پر اگلے کالم میں تحریر کروں گا مگر یہ بات کہنا ضروری ہے کہ اسمبلی تو صرف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہی تحلیل کر سکتے ہیں اور کوئی ذریعہ نہیں۔ تحریک عدم اعتماد کا جن ارکان کو خیال ہے وہ ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کی پہلی کمزور ترین حکومت پر جو مخلوط بھی تھی اس کا حال ضرور یاد کریں۔ آپریشن مڈنائٹ جیکال کے کردار ابھی زندہ بھی ہیں۔ آفتاب شیرپاﺅ نے آصف وردگ کے ساتھ جو کیا وہ ان سے پوچھ لیں۔
٭....٭....٭....٭....٭....٭....٭