کراچی (اے این این+آئی این پی+آن لائن ) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے ایک بار پھر نیشنل ڈائیلاگ کی تجویز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا، سیاسی جماعتیں قومی مکالمے میں جائیں، ایک دوسرے کے کاموں میں مداخلت نہ کریں اس سے 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد ناممکن ہوجائے، اس ترمیم کے ذریعے مارشل لاء کا راستہ روکا گیا، آئین میں ٹیکنو کریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ،ملک میں کوئی سول ملٹری تنازعہ نہیں ہے ، ملک میں آئین سب سے بالا تر ہے، احتساب کا عمل آئین پاکستان میں موجود ہے، اسکے بغیر کوئی معاشرہ نہیں چل سکتا۔ سب کا بلاامتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ عرب کلچر پاکستان میں متعارف نہیں کراسکتے کیوں کہ وہ اسلامی نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو اور ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں پر زور دیا کہ وہ ایک دوسرے کے کاموں میں غیر آئینی مداخلت نہ کریں ۔رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت ملنے والے حقوق کو چھیننا چاہتی ہے اور غیرآئینی اقدامات کے سبب 18 ویں ترمیم پر عملدرآمد ناممکن ہوجائے گا۔اس ترمیم کے ذریعے ملک میں مارشل لاء کا راستہ روکا گیا ہے۔18 ویں ترمیم کے بعد آرٹیکل 6 کے اندر ترمیم لائی گئی تاکہ مارشل لا کا راستہ روکا جائے۔ پرویز مشرف پر کیس بنا لیکن افسوس ریاست اسے عدالت تک نہیں لے جاسکی، ایک آمر فرار ہوکر بیرون ملک بیٹھا ہے اور وہاں سے ملکی سیاست پر تبصرے کرتا ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا سول سروس ریفارمز کسی بھی سول حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں نہیں سمجھتاکہ سول اورملٹری میں کوئی تنازع ہے۔ انہوں نے کہا سیاسی جماعتیں نیشنل ڈائیلاگ پربات کریں۔میں نے کوئٹہ میں عدلیہ کیساتھ ڈائیلاگ کی بات کی تھی اورملٹری بیوروکریسی کی بات بھی کی تھی۔چیئرمین سینٹ نے کہا احتساب کا عمل پاکستان کے آئین میں موجود ہے اور احتساب کے بغیر کوئی معاشرہ کوئی ملک نہیں چل سکتا۔سینٹ پہلا ادارہ ہے جس میں سینیٹرز جوابدہ ہوں گے، اگر کسی سینیٹرپر الزام ہوگا تو وہ خود کو پیش کریگا۔سینیٹ اور سینیٹرز نے خود کو احتساب کیلئے پیش کردیا ہے۔ انہوں نے کہا دہشت گردی کیخلاف آپریشن میں فوج کو کامیابی ملی ہے۔ دہشت گردی کے سلسلے میں آج ہمیں جن حالات کا سامنا ہے اس میں مشرف کا کردار ہے۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ملک کا آئین سب سے بالا تر ہے۔ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے۔ ایک دوسرے کے کاموں میں غیر آئینی مداخلت نہ کی جائے۔انہوں نے کہا تین بجٹ گزرگئے لیکن این ایف سی ایوارڈ نہیں آیا۔میرا عہدہ ایسا ہے کہ میں سیاسی باتیں نہیں کرسکتا۔انہوں نے مزید کہا کوئی احتساب سے متعلق قانون بنانا ہے تو سب کے لیے ہو۔احتساب کیلئے بننے والی پارلیمانی کمیٹیوں کوخط لکھا تھا۔رضا ربانی نے کہا موجود حالات میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا۔میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب غیرآئینی عمل کی بات سنتا ہوں۔ طے کرنا ہو گا پارلیمنٹ سپریم ہے یا کوئی اور ادارہ۔ انتخابات مقررہ وقت پر ہونا ضروری ہیں۔ آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ 2018 ء میں ایک اسمبلی دوسری منتخب اسمبلی کو اقتدار منتقل کریگی۔ اس سے قبل کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے رضا ربانی نے کہا کہ عرب کلچر پاکستان میں متعارف نہیں کرواسکتے کیوں کہ وہ اسلامی نہیں۔ ہمارے سکولوں میں پاکستانی تاریخ ٹھیک انداز سے نہیں پڑھائی جاتی اور نصاب میں بچوں کو جہاد کی ترغیب دی جاتی ہے۔ رضا ربانی نے کہا اگر پنجاب بھگت سنگھ کو اپنے نصاب کا حصہ بنانا چاہتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے اور کیا بھگت سنگھ نے انگریزوں کیخلاف جدوجہد نہیں کی۔ 1947ء سے 2012ء تک تعلیم اور نصاب کے شعبے وفاقی حکومت کے پاس تھے۔ مشترکہ مفادات کونسل کو صحیح استعمال نہیں کیا جارہا ہے۔ 3 سال سے نیا این ایف سی ایوارڈ دیا گیا نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں صوبوں کے بجٹ میں کٹوتی کی گئی جبکہ قائداعظم کے 14 نکات میں سے 4 نکات صرف صوبائی خودمختاری پر ہیں۔