وزیر اعظم پاکستان کو چاہیے کہ چین سے واپسی پر قوم کو اعتماد میں لیں اور خودحالات کا جائزہ لے کے تقریر کریں ۔اب وہ ملک کے حاکم ہیں اور اب انہیں حکمت عملی سے کام لینا آنا چاہیے۔انہیںایک طرف پاکستان میں عدالتی فیصلوں سے پیدا صورتحال میں اپنی پوزیشن واضع کرنا ہوگی اور ساتھ دوسری طرف غیر ملکی سرمایہ داروں کو یقین دلانے کی کوشش کرنی ہے کہ وہ بے فکر ہو کر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں ان کو ہر ممکن تحفظ دیا جائے گا ۔حکومت ہر حال میں رِٹ آف دی سٹیٹ بحال کرے گی ۔جب مذہبی جماعت کے لوگوں نے سڑکیں بند کرنے کا اعلان کیا تو محترم وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ٹی وی پہ ایک معصومانہ بات کہی کہ سڑکیں بند کرنے سے غریب کا نقصان ہوتا ہے ۔یہ بات وہ شخص کہہ رہا تھا جس نے ماضی قریب میں ہر دوسرے دن ہر شہر بند کیے رکھا ۔جس کے پہلو میں کھڑے لوگ جلا دو مار دو کے نعرے بلند کیے کرتے تھے ۔خیر اب جب کہ انہیں سمجھ آگئی ہے کہ سڑک ہونے سے غریب کا نقصان ہوتا ہے تو انہیں چاہیے کہ سب مخالف جماعتوں کے ساتھ بیٹھیں اور مستقبل میں سیاسی مخالفت یا احتجاج کاایسا طریقہ ڈھونڈیں جس سے عام پاکستانی متاثر نہ ہو۔کسی بھی حال میں سڑک بند کرنے پہ دہشت گردی کا مقدمہ چلنا چاہیے ۔
دو دن پورے ملک خاص کر پنجاب کی سڑکوں پہ دھماچوکڑی مچانے کے بعد مذاکرات ہو ئے اور یہ خبر آئی کہ حکومت اور لبیک والوں کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں ۔یہ کام پہلے بھی ہوسکتا تھا ؛محترم خان صاحب اپنی تقریر میں یہ بات خود کر لیتے تو کونسی قیامت آجانی تھی۔لیکن اگر وہ سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہوتے تو پھر دو دن ملک میں توڑ پھوڑ کیسے ہوتی ۔خیرمذاکرات ہوئے اور دھرنا ختم ہوتے ہی رستے کھلنے شروع ہوگئے اور دو دن سے رستو ں میں پھنسے لوگ اپنے پیاروں کی طرف ,اپنے روزمرہ کے کام کاج کی طرف جانا شروع ہوئے۔ایسے دھرنے گھیراو جلاو پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اس ملک میں سڑکیں بند کرنا ایک عام سی بات ہے ۔کہیں کوئی خاندانی جگھڑے میں مارا جائے تو سڑک بند کردو تو سڑک بند,کہیں امتحان میں مرضی کا نتیجہ نہ آئے تو سڑک بند,کہیں ڈاکٹروں کو مرضی کی تنخواہ نہ ملے تو سڑک بند,کہیں سیاستدان کو اپنے مفادات پہ آنچ آتی دکھائی دے تو سڑک بند,کسان,ڈاکٹر ,وکیل ,طالبعلم ,نرسیں ,استاد ,لسانی گروہ ہر کوئی سب سے پہلا اور آسان کام سڑک بند کرنا ہی سمجھتا ہے ۔بجلی بند ہو تو گرڈ سٹیشن جلا دو۔گیس بند تو سوئی گیس کی املاک اور عملہ پر حملہ کروعدالت کا فیصلہ پسند نا آئے تو عدالت جلا دو۔پارٹی کا یا برادری کا بندہ گرفتار ہو جائے تھانہ جلا دو۔اقتدار چاہیے ہو تو گیھراو، جلاو، مارو۔اور اب یہ ہماری قومی سوچ بن چکی ہے کہ جب سڑک بند کی جاتی ہے تو یہ دھیان رکھا جاتا ہے کہ کوئی مسافر اس سڑک سے گزرنے نہ پائے ۔سڑک بند کرنے والے سڑک بند کرتے وقت خیال رکھتے ہیں کہ ہجوم کیسے بڑھانا ہے ۔نوجوان ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے گاڑیوں میں بیٹھے شریف شہریوں کو دھمکاتے رہتے ہیں ۔پولیس بہت دور کھڑی صورتحال دیکھتی رہتی ہے ۔پولیس کرے بھی تو کیا کرے ۔ماضی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر پولیس نرمی سے بات کرے تو مظاہرین پولیس کی بات بالکل بھی نہیں مانتے ہیں ۔اور اگر پولیس زرا سی سختی کرے تو میرے ملک کا میڈیا اس فوٹیج کو بار بار اس طرح دکھاتا ہے کہ اعلی عدالتیں ان پولیس والوں کو نوکری سے برخواست کردیتی ہیں ۔لائن حاضری مقدر بنتا ہے یا لمبی چھٹی جانا پڑتا ہے ۔پچھلے دور میں جب انقلابیوں نے ٹی وی چینل پر قبضہ کر لیا تو فتح کے نعرے بلند کرنے والوں نے بعد میں کہا کہ حملہ آور ان کے بندے نہیں ہیں ۔میرے نئے پاکستا ن کے قائد جناب محترم عمران خان جن ٹائیگرز کو آگے بڑھنے کی ترغیب دیتے تھے جب وہ آگے بڑھ چکے تو دوسرے دن خان صاحب نے یو ٹرن لیا اور کہا کہ دنگا فساد کرنے والوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔پچھلے دودن سڑکوں پہ کئی گاڑیاں جلا دی گئیں ۔کئی لوگوں کو پیٹا گیا ۔کئی سٹورز کو لوٹ لیا گیا ۔اور اب مذاکرات کے بعدایک طرف تحریک لبیک والے سب گرفتار کارکنو ں کی رہائی کی شرط منواچکے ہیں تو دوسری طرف فرماتے ہیں ۔کہ توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراؤ کرنے والوں سے انکا کوئی تعلق نہیں۔ تو اب نئے پاکستان میں حکومت کو کچھ نیا کرنا چاہیے جن مجرموں کے خلاف ثبوت ہیں کہ وہ فساد میں ملوث پائے گئے ان پر دشت گردی کے مقدمات بنائے جانے چاہیے ۔جو پکڑے گئے اور جو بھاگ گئے ان سب کو گرفتار کرکے سرعام عبرت ناک سزا دی جائے۔ آج ساری جماعتوں کو قانون سازی سے احتجاج کا طریقہ طے کرنا ہوگا ۔اگر ماضی کو دیکھیں تو ساری سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی ,نون لیگ اور پی ٹی آئی دھرنوں ,لانگ مارچوں کی سیاست کرتی رہی ہیں۔یہ روش ختم کرنا ہوگی ۔ہر حال میں ہر صورت ریاست کی رٹ بحال کرنا ہوگی ۔ایسے لوگ جو ایسے جلسوں کی آڑ میں لوٹ مار یا دنگا فساد کرتے ہیں ان کے لیے الگ سے پولیس فورس تشکیل دینی ہوگی ۔تب بنے گا نیا پاکستان ,روشن پاکستان,مضبوط پاکستان,مستحکم پاکستان۔