ایک لمبا تڑنگا مولوی صلاح الدین صاحب کے کمرے سے نکلااور میرے کیبن کے دروازے پر آکھڑا ہوا، کہا:میری مشکل کے ساتھی ہو‘‘۔"یہ پہلی بار تھی جب میں نے مولانا سمیع الحق کو اتنے قریب سے دیکھا اور اْن سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا۔مولانا طویل قامت تو تھے ہی، پگڑی قد میں مزید اضافہ کردیتی۔ مولانا میرے کیبن کے دروازے پر کھڑے تھے،میں ان کے احترام میں کھڑا ہوا گیا اور کہا: نہیں، مولانا! میں نے تو صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری ادا کی تھی‘‘۔" مولانا نے ایک قدم مزید آگے بڑھایا،میرے بڑھے ہوئے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پرجوش مصافحہ کیا پھر بازو پھیلا کر بغل گیر ہوگئے۔مولانا کی وارفتگی بلا سبب نہ تھی۔ یہ واقعہ نوے کی دہائی کا ہے جب معاشرہ جنرل ضیا کے حامیوں اور مخالفین میں اس طرح تقسیم تھا کہ سماجی رشتے تک داو پر لگ چکے تھے۔مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمیعت علمائے اسلام تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی)میں شامل رہی تھی،اس لیے عمومی طور پر اس کا جھکائو محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کی طرف سمجھا جاتا جب کہ ان کی مخالفت میں تشکیل پانے والے اسلامی جمہوری اتحاد کی محبتوں کا مرکز جنرل ضیا محسوس کیے جاتے۔ مولانا سمیع الحق کی جمیعت علمائے اسلام سیاسی تقسیم کے اسی طرف تھی اور مطمئن تھی کہ اچانک ایک روز اس پرسکون جھیل میں اضطراب کا پتھر آن گرا۔مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ جمعیت کے تمام دھڑوں نے ان کی قیادت کو تسلیم کرکے اپنی علیحدہ علیحدہ شناختیں ختم کرڈالی ہیں اور مولانا سمیع الحق نے بھی نائب امیر بننا قبول کرلیا ہے۔یہ ایک ناقابل یقین خبر تھی لیکن اس پر یقین اس لیے کیا گیا کہ فریق ِ مخالف کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔اتفاق سے ان ہی دنوں کسی کام سے میرا سرگودھا جانا ہوا جہاں سیاسی کارکنوں کے ایک بڑے مرکز حافظ سوڈا واٹر پر مولانا محمد صادق سے میری ملاقات ہوگئی۔مولانا صادق سرگودھا میں جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مدار المہام مولانا قاری عبدالسمیع کے انتہائی قریبی عزیز تھے لیکن دونوں خاندانوں کے درمیان کسی قدر دوری تھی جس کے سبب دونوں خاندانوں کی سیاسی زندگی بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی تھی، لہٰذا مولانا صادق اپنی خاندانی روایت کے برعکس مولانا فضل الرحمن کے بجائے مولانا سمیع الحق کے قریب تھے اور سرگودھا میں ان کے سیاسی چہرے کی حیثیت رکھتے تھے۔مولانا صادق سے یہ ملاقات کئی برس کے بعد ہورہی تھی، بہت تپاک سے ملے اورمجھے حافظ سوڈا واٹر پر فالودے پر مدعو کرلیا۔
حال احوال کے بعد مولانا صادق میز پر جھکے اور مجھ سے سوال کیا کہ تمھیں کچھ خبر بھی ہے کہ کیا ہوا؟عرض کیا کہ جمیعت متحد ہو گئی، بہت اچھا ہوا۔میرے جواب پر انھوں نے معنی خیز انداز میں سرہلایا اور کہا کہ اسی کی تو تمھیں خبر نہیں، بلکہ کسی کو بھی خبر نہیں۔پھر انھوں نے انکشاف کیا کہ مولانا فضل الرحمن کی زیر قیادت دھڑے نے کس طرح یک طرفہ طور پر اجتماع منعقد کیا اور بالا ہی بالا اتحاد کا اعلان کردیا۔میرے کریدنے پر انھوں نے اس واقعے کی پوری تفصیلات بیان کردیں۔یہی تفصیلات تھیں جو میں نے رپورٹ کیں۔مولانا سمیع الحق نے مجھے اپنی مشکل کا ساتھی قرار دیا تو ان کا اشارہ اسی رپورٹ کی جانب تھا کیوں کہ یہ رپورٹ ہی تھی جس کی اشاعت کے بعد سمیع الحق گروپ کو نئی زندگی مل سکی۔ابتدائی گفت گو کے بعد جب دونوں جانب اعتماد کی فضا پیدا ہو گئی تو میں نے سوال کیا کہ مولانا!اگر اتحاد کی یہ ساری کارروائی شفاف نہ تھی اور آپ لوگوں کو اس بارے میں مکمل طور پر اعتماد میں بھی نہیں لیا گیا تو کیا وجہ تھی کہ آپ نے اس عمل کے بے نقاب ہونے کے لیے ایک صحافی کی رپورٹ کا انتظار کیا، خود کوئی آواز بلند نہ کی؟میرا سوال سن کر ان کے چہرے پربے چارگی کے سائے پھیل گئے اور انھوں نے نہایت دکھ کے ساتھ کہا :اس نے مجھے اس طرح دیوار کے ساتھ لگا دیا تھا کہ کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا‘‘۔"ان کا اشارہ مولانا فضل الرحمن کی طرف تھا۔مولانا سمیع الحق سے میرے تعلق خاطر کی بنیاد یہی واقعہ بنا۔ اس کے بعد جب کبھی بھی وہ کراچی تشریف لائے، انھوں نے ملاقات کی ہمیشہ ہی کوئی صورت نکالی اور میں نے جب بھی انٹرویو کے لیے درخواست کی، انھوں نے وقت کی کمی اور مصروفیات کی زیادتی کے باوجود میرے لیے وقت نکالا۔
میاں نواز شریف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے پارلیمنٹ سے شریعت بل منظور کرا کے تاعمر خلیفۃ المسلمین بن جانے کی منصوبہ بندی کی تھی لیکن یہ کہتے ہوئے اس حقیقت کو :نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ یہ مولانا سمیع الحق ہی تھے جنھوں نے پاکستان میں پہلا شریعت بل تیار کرکے سینیٹ سے منظور کرایاتھا۔ایک انٹرویو میں انھوں نے نہایت دکھ کے ساتھ کہا: جب قومی اسمبلی سے اس بل کی منظوری کے آثار پیدا ہوئے تو حکومت اور اسمبلی دونوں کو تحلیل کردیا گیا‘‘۔" ان کی خاموشی کو دیکھ کر میں نے اپنے سوالات کی فہرست پر نگاہ ڈالی اور کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ انھوں نے کہا: مقصد یہ ہے کہ ایک بنیاد قائم ہوجائے‘‘۔" ایک ایوان سے بل کی منظوری سے کچھ بنیاد قائم ہوئی، کچھ نہیں ہوئی لیکن اس دوران کچھ ایسے واقعات رونما ہوگئے جن سے مولانا سمیع الحق،ان کے ہم خیال اور دینی طبقات بڑے پیمانے پر مایوس ہوئے۔اصل میں ہوا یوں کہ مولانا سمیع الحق اور ان کے اتحادیوں کے درمیان دوریاں پیدا ہوتی چلی گئیں جن سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ اب ووٹ کے ذریعے ْاس تبدیلی کا ظہور ممکن نہیں رہا جس کی خاطر مولانا اوران ہی سے ملتی جلتی آدرشیں رکھنے والے بزرگوں نے کئی دہائیوں تک قربانیاں دیں اور حالات کے مدّو جذر کو دیکھتے ہوئے حکمتِ عملی میں تبدیلیاں کیں۔یہ کم و بیش وہی دن تھے۔جب افغانستان میں انجینئر گل بدین حکمت یار اور کمانڈراحمدشاہ مسعود لڑ لڑ کر ہلکان ہو چکے تھے اور طالبان معرکے پر معرکہ مارتے ہوئے کابل پر قابض ہوچکے تھے۔عین ان ہی دنوں اِ ن کا کراچی آنا ہوا اورقصر ناز میں میری ان سے ملاقات ہوئی۔قومی زندگی میں اس مکتبۂ فکر کی پے در پے پسپائی کے ضمن میں ؛ میں نے ان سے سوال کیا تو لگا جیسے وہ بھرے بیٹھے تھے۔ایسی کیفیت میںوہ کسی قدر طیش اور انتہائی تیزی کے ساتھ بات کرتے ، یوں لگتا جیسے ان کی رفتارِ گفتار اور خیالات کے درمیان توازن بگڑ چکا ہے۔بس، ایسی کیفیت میں وہ تیزی، ہیجان اور جذبات کے وفور میں بولتے چلے جاتے اور ہوشیار صحافیوں کے قلم تیزی سے چلتے چلے جاتے۔ایسی ہی کیفیت میں انھوں نے اس روز کہا :بس، اب ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ ہے خونی انقلاب کا راستہ‘‘۔"اس روز حیرت سے میں نے ان کا یہ سخن سنا اور ان حالات کے بارے میں سوچاجو اس انداز فکر کے نتیجے میںظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔میں نے کوئی ضمنی سوال کیا تو اسی کیفیت میں وہ بولے:ایسا ہوا تو میں افغانستان جا پہنچوں گااورکسی غار میں بسیرا کروں گا‘‘۔
مولانا فی الاصل کیا تھے؟ پاکستان میں اور افغانستان میں ان کی اہمیت کیا تھی؟ ان کا دائرہ اثرمولانا فضل الرحمن سے زیادہ تھا یا کم؟اِن سب سوالوں کے جواب آسان نہیں۔ممکن ہے ،وہ بہت سے معاملات میں بہت سوں سے پیچھے ہوں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کم یا زیادہ، طوعاًیا کرہاًلوگ ان کے آستانے پر حاضری پر مجبور ہوتے اور عمران خان کی طرح اپنی مراد پاتے۔ہماری قومی زندگی میں لوگ انھیں تادیر اپنے اپنے انداز میں یاد کرتے رہیں گے۔