امان اللہ چٹھہ
چاول کی فصل غذائی ضرورت پورا کرنے کے علاوہ غیر ملکی زرمبادلہ فراہم کرنے والی اہم ترین اجناس میں شمار ہوتی ہے جس کی پیداواری و تجارتی صلاحیت (Potential)کو پوری طرح بروئے کار لایا جائے تو سالانہ چار سے پانچ ارب ڈالر زرمبادلہ کا حصول یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ فصل جہاں وطن عزیز کے چاروں صوبوں میں وسیع رقبے پر کسانوں کا ذریعہ معاش ہے وہاں لاکھوں مزدوروں، کارخانہ داروں اورتاجروں کا روزگار بھی اس سے وابستہ ہے ۔لیکن تمامتر معاشی اہمیت کے باوجودسرکاری ادارون کی بے توجہی کے باعث یہ فصل اکثر سنگین بحران سے دوچار رہی ہے جس کے نتیجہ میںبیک وقت کاشتکار اور کاروباری لوگ دیوالیہ پن کی کیفیت سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔
چاول کی فصل کی پیداوار سے لے کر برآمد تک متعلقہ سرکاری اداروں،تحقیقاتی مراکزکی کارکردگی اورتجارتی و سفارتی اداروں کا اس میں بنیادی کردار ہے ۔سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں ترقی یافتہ اقوام نے تحقیق(Research)کے بل بوتے پر خوشحالی کی منزل حاصل کرنے کیساتھ دوسری اقوام پر معاشی و سیاسی بالاد ستی بھی قائم کر رکھی ہے۔ ان اقوام نے اعلیٰ درجہ کے تحقیقاتی ادارے قائم کرکے ان کو تمامتر ضروری ساز و سامان اور سہولتیں مہیا کررکھی ہیں ۔جہاں پر ماہرین اور ریسرچ سکالر رات دن ایک کرکے مختلف فصلوںکے ترقی دادہ بیج اور ان کی کاشت کے بہتر طریقوں کی ٹیکنالوجی فراہم کرتے ہیں۔جسے عام کسان تک پہنچا کر حکومت انہیںسہولتیں فراہم کرتی ہے۔ اس طرح ان ممالک نے اپنی فی ایکڑ پیداوار(Yield)میں حیرت انگیز طور پر دو سے تین گنا تک کا غیر معمولی اضافہ کر لیا ہے۔ مگر ہمارے کسان ترقی یافتہ ممالک کا مقابلہ نہیں کرسکتے جس کا نتیجہ کسانوں میں محنت و اخراجات کے منصفانہ معاوضے اور ملک کے زرمبادلہ سے محروم رہنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
باسمتی چاول تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی:
ہمارے ہاں لاہور کے قریب کا لا شاہ کاکو میں برصغیر کا چاول کا قدیم ترین تحقیقاتی ادارہ موجود ہے جس نے ماضی میں کچھ قابل ذکر کام بھی کیا ہے لیکن اب شاید ارباب بست و کشاد کی عدم دلچسپی کے باعث دوسروں کی طرح یہ ادارہ بھی فعال کردار ادا کرتا نظر نہیں آتا۔ ہمارا باسمتی چاول اپنی قسم (Variety)اور چاول کے مخصوص علاقہ(کالر و گرد و نواح) کی آب و ہوا کی وجہ سے خوشبو نفاست اور غذایئت کے لحاظ سے دنیا بھر میں منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ باسمتی 370کا بیچ طویل عرصہ تک کاشت ہوتا رہا پھر اس کی پیداورای صلاحیت کم ہونے پر اسی ادارہ نے سپر باسمتی کا بیج تیار کیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ بیج بھی اپنی صلاحیت بہت حد تک کھو چکا ہے چنانچہ پچھلے چند سال سے بھارت سے سمگل شدہ بیج’’ انڈیا باسمتی‘‘ یا کائنات نے اس کی جگہ لے لی ہے جو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
رواں سیزن میں کسان، پنجاب اور چناب باسمتی کے نام سے نئی اقسام (Varieties)متعارف کروائی گئیں جو کامیاب نہیں ہوئیں اگیتی قسم کسان باسمتی کی بالیاں خالی رہنے کی وجہ سے اس کو بھوسہ باسمتی کا نام بھی دیا جارہا ہے جو بھاری مالی نقصان کا باعث بنا ہے۔ یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ حکومت باسمتی کی اہم ترین برآمدی فصل کو جو اپنی اعلیٰ خصوصیات کی وجہ سے ملک کی شناخت ہے، معدوم ہونے سے بچانے کے لئے تحقیقاتی اداروں کو خصوصی ٹاسک دے کہ وہ مقررہ مدت کے اندر سپر باسمتی کا متبادل بیج تیار کریں ۔
برآمدی تجارت …حکومتی اداروں کا کردار:
چاول کی برآمد اگرچہ نجی شعبہ کے ہاتھوں میں ہے لیکن حکومتی اداروں کا کردار بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے جو جنس کی بیرون ملک ترسیل اور عالمی منڈی تک بہتر رسائی میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ وزارت تجارت ٹڈاپ (TDAP)اور سفارت خانے قومی جذبہ کے ساتھ برآمدی تجارت کے فروغ کی مخلصانہ کوشش کریں تو کاشتکاروں اور تاجروں کے ساتھملکی خزانہ کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے ۔ ہمارے اعلیٰ کوالٹی کے باسمتی چاول کے مقابلہ میں مشرق وسطی کے بردار مسلم ممالک میں بھارتی چاول کی مانگ زیادہ ہے جو وہاں کے تاجروں سرکاری اداروں بالخصوص سفارت کاروں کی بہتر کارکردگی کا عملی ثبوت اور ہمارے متعلقہ اداروں اور حکام کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے برعکس ہمارے چاول پر بیرونی خریداروں کا بھرپور اعتماد نہ ہونے کی ایک وجہ ناقص یا ملاوٹی مال سپلائی کرنے کی شکایات ہیں۔ ایسے نا پسندیدہ تجارتی رویہ اختیار کرنے والوں کا محاسبہ جہاں برآمد کنندگان کی تنظیموں کو کرنا چاہیے وہاں برآمدی تجارت کے ذمہ دار حکومتی اداروں کو بھی نگرانی کا ایسا شفاف اور خودکار میکنزم بنانا ہو گا۔ جس سے صاف ستھرا مال برآمد کرنے والوں کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ برآمدی تجارت میں دوسرا نمایاں کردار وزارت تجارت اور سفارت خانوں میں تعینات کمرشل اتاشیوں کا ہے جن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دوسرے ممالک میں حکومتی اور نجی سطح پر تجارتی روابط بڑھانے کیلئے پیشہ ورانہ مہارت سے کام لیں۔ اور اس مقسد کیلئے روڈ شو، فوڈ فیسٹیو ل اور سربراہ حکومت یا ملکی وزرا کے دوروں سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو اضافی اخراجات کے بغیر محض قومی خدمت کے بے لوث جذبہ سے سرانجام دیئے جاسکتے ہیں۔