جعلی ڈومیسائل، اہل نوجوانوں، تعلیم اور روزگار سے محروم

امین یوسف
سندھ حکومت جعلی ڈومیسائل و مستقل رہائشی سرٹیفکیٹ(پی آر سی) بنانے کے خلاف ڈویژنل سطح پرگذشتہ دس سالہ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کرے گی۔ اس عمل کے لیے کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں بنائی جائیں گی جبکہ ڈومیسائل و پی آرسی سے متعلق قانون میں ترامیم کی سفارشات بھی سامنے آئی ہیں۔ اس بات کی یقین دہانی حکومت سندھ نے ہائی کورٹ میں جعلی ڈومیسائل و پی آر سی کی بنیاد پر ملازمتیں دینے کے خلاف متحدہ رہنما خواجہ اظہار الحسن کی درخواست کی سماعت کے موقع پر کرائی ۔ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار نے ڈومیسائل سے متعلق کمیٹی بنانے کی استدعا کی تھی جس پر سندھ حکومت نے عمل کیا اور تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی ۔متعلقہ کمیٹی نے مختلف علاقوں میں ڈومیسائل بنائے جانے کے عمل کا جائزہ لیا اور غفلت برتنے والے افسران کی نشاندہی کی ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لیے سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ خواجہ اظہار نے موقف اختیار کیا تھا کہ سندھ حکومت 5ہزارسے زائدملازمتیں فراہم کی ہیں جعلی ڈومیسائل سے شہری علاقوںکے لوگوں کو ملازمتوں سے دور رکھا جا رہا ہے، شہری سندھ کے کوٹے پر بھی دیہی سندھ کے شہریوں کو نوکریاں دی جا رہی ہیں ۔جعلی ڈومیسائل کا مسئلہ بہت سنگین مسئلہ رہا ہے۔ 73 سال کے سفر کو طے کرنے کے بعد اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہاہے۔شہری اور دیہی کے علاوہ اس میں اور عوامل بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جعلی ڈومیسائل مافیا اتنا مضبوط ہے کہ آپ چند ہزار روپے کے عوض گھر بیٹھے ڈومیسائل اور پی آر سی حاصل کر سکتے ہیں۔اس رجحان نے سندھ کو تباہی کے دلدل کے قریب کردیا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے پیچھے بعض سیاستدانوں کا ہاتھ بھی ہے۔ وہ ایسی حرکتیں صرف اپنے ذاتی لالچ یا الیکشن میں کامیابی کے لئے بھی کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے اب بھی یہ سرگرمیاں ہر روز جنم لے رہی ہیں۔ کچھ عرصے قبل ڈپٹی کمشنر لاڑکانہ کے دفتر کے ذریعہ سات سو غیر رہائشیوں کو لاڑکانہ ڈویژن کا جعلی ڈومیسائل دیا گیا تھا،یہ صرف لاڑکانہ شہر کا مسئلہ نہیں سندھ کے تمام شہروں خصوصا شہری علاقوں میں روزانہ اس قسم کے سینکڑوں جعلی ڈومیسائل اور پی آر سی جاری کرنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔1951 کے پاکستان شہریت ایکٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اس درخواست پر مقررہ تفصیلات پر مشتمل کسی بھی شخص کو ڈومیسائل کا سرٹیفکیٹ دے سکتی ہے۔ جن کے بارے میں یہ بات مطمئن ہے کہ وہ درخواست دینے سے فورا.بعد ایک سال تک پاکستان میں رہائش پذیر ہے اور اس نے وہاں رہائش حاصل کرلی ہے۔ مزید یہ کہ ، سندھ مستقل رہائشی قوانین 1971 کے مطابق کوئی بھی فرد 'سی' میں سند دینے کے اہل نہیں ہوگا جب تک کہ (1) وہ کسی بھی علاقے میں پیدا ہوا ہو جو سندھ کا ایک حصہ ہوا۔جہاں پیدائش ہوئی اور تعلیم حاصل کی قانون کے مطابق ڈومیسائل اسی تحصیل اور ضلع سے جاری ہوگا لیکن سندھ میں نوکریوں اور تعلیمی اداروں مین داخلہ کے لئے جعلی ڈومیسائل بنائے جاتے ہیںاس طرح نہ صرف دوسروں کا حق مارا جارہا ہے بلکہ اہل نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار سے دور کیا جارہا ہے جس سے ان میں فرسٹریشن بڑھ رہی ہیں۔اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کے جعلی ڈومیسائلز اور پی آر سی کی وجہ سے صو بہ کو کیا نقصانات ہیں تواگر سندھ کے جعلی ڈومیسائل اور پی آر سی غیر رہائشیوں کو دیئے جاتے ہیں تو وہ کوٹہ سسٹم پر تعلیمی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں اور مستقل رہائشیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر دیتے ہیں۔بے روزگاری میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔بعض نام نہاد رہنما اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ اتحاد اور طاقت کو کم کیا جاسکے ۔  یہ حقیقت ہے کہ بے روزگاری کی وجہ سے خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے ۔حکومت ایسا کمپیوٹرائزڈ نظام وضع کرے جس کے تحت جعلی ڈومیسائل اور پی آر سی بنانے کا مستقل خاتمہ ہوسکے ۔جعلی ڈومیسائل رکھنے اور بنانے والوں کو سزا دی جانی چاہئے اور ان کی ڈگریاں جو بوگس ڈومیسائل کی بنیاد پر ہیں کو بھی منسوخ کیا جانا چاہئے۔مستحق امیدوار جو ان کے حقوق سے محروم تھے انہیں یونیورسٹیوں میں ملازمت اور داخلہ فراہم کرنا ہوگا۔سندھ ہائی کورٹ میں دائر حکومت سندھ کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر کمشنرز کی سربراہی میں کمیٹیاں بنائی جائیں گی لیکن یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ آیا متعلقہ کمشنرز از خود اس کام کی نگرانی کریں گے یا پھر بات ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر پر آئی گی جو اس تمام معاملات کے ذمہ دار ہیں۔ یہ کمیٹیاں کس حد تک خود مختار اور آذاد ہوں گی۔ 
کراچی ایک بار عالمی خبروں کی زینت بنا ہوا ہے اس بار شہر کا ٹرانسپورت نظام زیر بحث ہے۔ نامور جریدے بلوم برگ نے کراچی کے ٹرانسپورٹ سسٹم کو دنیا کا بدترین نظام قرار دیا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق عالمی سطح پر پہچان رکھنے والے کراچی میں ٹرانسپورٹ کا کوئی نطام ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شہری اس وقت بدترین مشکلات سے دوچار ہیں۔ رکشہ، ٹوٹی پھوٹی بسیں، چنچی اور گلی سڑی ویگنیں ان کا مقدر ہیں۔ کراچی کے سابق ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں کراچی میں گرین بس کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو کہ اب ختم ہو چکا ہے۔ پیپلز پاٹی کی حکومت نے متعدد بار بسیں چلانے کا وعدہ کیا لیکن وہ بھی وفا نہ ہوسکا، وفاقی حکومت کا گرین لائن منصوبہ مسلسل التوا کا شکار ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کے شہریوں کو کب اور کون ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے میں سنجیدہ ہوگا۔

ای پیپر دی نیشن