’’کشمیر اس وقت قیامت کا منظر پیش کررہا ہے۔ کشمیری عوام حق پر ہیں ۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ تحریک نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ہندوستان کے لیے قوت کا باعث بنے گی ۔ انکے احتجاج کو فرقہ وارانہ رنگ دینا لغوہے۔تشدد میں تسلسل، ریاست میں لاقانونیت کو جنم دے رہا ہے۔ ‘‘
اقبال ایک دور اندیش نگاہ رکھنے والے مرد قلندر تھے ۔ انھوں نے اپنی بصیرت سے مستقبل کے دبیز پردوں میں لپٹے ہوئے مسائل کا ادراک بھی کیا اوران کا ایک جامع حل بھی تجویز کیا ۔پاکستان کا وجود آپ ہی کے ذہن رسا کا حاصل ہے ۔ اہل کشمیر کو بھی انھوں نے سعیٔ پیہم اور جہد مسلسل جاری رکھنے کی تلقین کی اور ساتھ ہی اپنی صفوں میں موجود میر جعفر و میرصادق جیسے کرداروں سے آگاہ رہنے کا مشورہ بھی دیا ۔
ملت را ہر کجا غارت گرے است
اصل او از صادقے یا جعفرے است
الاماں از روح جعفر الاماں
الاماں از جعفر ان ایں زماں
علامہ کے کلام میں جابجا غلامی سے نجات کا درس دیا گیا ہے ۔ وہ غلامانہ طرززندگی سے سخت نفرت کرتے تھے ۔آزادی ان کی شاعری کے بنیادی موضوعات میں سے ہے۔ وہ ’ازخوئے غلامی زسگاں خوارتراست‘ کے پیامبر ہیں لیکن انھوں نے بے یقینی کو غلامی سے بھی بدتر قرار دیا ہے ۔ یعنی یقین محکم آزادی سے بھی اگلا درجہ ہے ۔ وہ خود بھی ’حق الیقین‘ کے مرتبے پہ فائز تھے اور اپنی قوم کو بھی پختہ یقین کا حامل دیکھنا چاہتے تھے ۔ انھیں کامل یقین تھا کہ ایک دن اہل کشمیرغلامی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے ۔ 12مارچ 1923ء کو غلام احمد مہجور کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں۔ ’’میرا عقیدہ ہے کہ کشمیر کی قسمت عنقریب پلٹاکھانے والی ہے۔‘‘ (بہ حوالہ: کلیات مکاتیب اقبال۔ جلد دوم)
جس خاک کے خمیر میں ہے آتش چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہووہ خاکِ ارجمند
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی ظلم کو دوام نہیں رہا۔آخرکار فتح حق ہی کا مقدرٹھہرتی ہے۔ آج کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ تسلط کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے اہل کشمیر ہر طرح کی قربانی دے رہے ہیں ۔ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائیگی بلکہ ایک ایسادن ضرور آئیگا کہ ہندوبنیا ہزیمت سے دوچار ہوگا۔گزشتہ صدی میں ہم نے جبرواستبداد کے نظام کو ذلت کی خاک چاٹتے دیکھا۔برطانوی استعمار کا قلع قمع ہوا۔ اشتراکیت کا فسوں پارہ پارہ ہوا۔کمیونزم کو ماسکو کی گلیوں میں بھی پناہ نہ ملی۔آج امریکا نیٹو کے لاؤ لشکر سمیت افغانستان سے بھاگ رہا ہے۔ وہ وقت دور نہیںجب کشمیر مکمل آزاد ہو گا اور ہندوستان ذلیل و رسوا ہو گا۔ان شاء اللہ
گرم ہوجاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہانِ چار سوورنگ و بو
ضربتِ پیہم سے ہوجاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بتِ سنگین دل و آئینہ رو
…………………… (ختم شد)