اسلام : برنارڈ شا کا تاریخی قول 

فرانس میں چند روز میں جو کچھ ہوا‘ جو ہو رہا ہے اور جو اب ہونے جا رہا ہے اس سے عالم اسلام ہی نہیں دنیا بھر کے عیسائیوں اور سکھوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے عالمی سطح پر سخت احتجاج کا ہنوز سلسلہ جاری ہے امت مسلمہ کو اس صورتحال سے دوچار کرنے والا شیطانی کردار ’’سیموئیل پیٹی‘‘ نامی وہ سکول ٹیچر تھا جو بنیادی طور پر تاریخ اور جغرافیہ کے مضامین پڑھاتا تھا مگر حالیہ برسوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف بنائے گئے گستاخانہ خاکے متعدد بار وہ طلبہ کو دکھا چکا تھا۔ ایک مسلمان طالب علم نے جب اس کی توجہ ان گستاخانہ خاکوں کی جانب مبذول کرائی تو اس شیطان صفت ٹیچر کا جواب تھا کہ جو سٹوڈنٹس یہ خاکے دیکھنا پسند نہیں کرتے یا پھر ان خاکوں پر اپنے آپ کو کنٹرول کرنا ان کیلئے دشوار ہے اپنا منہ اور توجہ وقتی طور پر وہ دوسری جانب کر لیں تا کہ ان کے جذبات پر یہ گستاخانہ خاکے اثرانداز نہ ہو سکیں۔ 
سیموئیل پیٹی کے ان الفاظ میں زہر ہی نہیں گستاخی رسول بھی صاف عیاں تھی جو ختم المرسلین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس کا نعوذ باللہ کھلا مذاق تھا۔ بچہ گو بچہ تھا مگر وہ اس شیطان صفت ٹیچر کے شیطانی عمل کے بارے میں فیصلہ کر چکا تھا اور پھر اس بچے نے مبینہ طور پر عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا وہ عمل بھی کر دکھایا جو ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے ہر مسلمان بچے‘ نوجوان اور بوڑھے پر لازم ہے۔ سیموئیل پیٹی کا قتل پیرس کے مضافات میں کیا گیا اور اس واقعہ کے بعد پولیس نے ایک 18 سالہ نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مساجد بند اور اس واقعہ میں ملوث کئی مسلمان نوجوانوں کو فرانسیسی پولیس اب تک گرفتار کر چکی ہے۔ یہ افسوسناک معاملہ اگر یہاں تک رہتا تو ہو سکتا تھا کہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے کی گئی معذرت پر مذہبی آہنگی کے بارے میں کسی نئی پالیسی کو زیر غور لایا جا سکتا مگر فرانسیسی صدر ’’عمانویل میکرون‘‘ کے اس افسوسناک واقعہ کے بعد ادا کئے اس کے ان الفاظ Islam is crises religon (اسلام بحران کا مذہب بن چکا ہے) جلتی پر تیل کا کام کیا۔ توقع تو یہ تھی کہ ’’میکرون‘‘ پیغمبر اسلام کے خلاف تیار کئے گئے ان گستاخانہ خاکوں پر عالم اسلام سے غیر مشروط معافی مانگے گا مگر میکرون نے اب یہ کہہ کر ملکی قوانین کے تحت مذہب اور ریاست کو الگ رکھنے کیلئے آئین میں مزید ترامیم ناگزیر ہیں۔ امت مسلمہ کو مزید غم و غصہ سے دوچار کر دیا ہے۔ 1905کے قانون کے بارے میں یہاں یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ فرانس نے چرچ کو ریاست سے جدا کرتے ہوئے 1905 اپنے آپ کو سیکولر ریاست قرار دیا تھا اور یہی وہ فیصلہ تھا جس سے مسلمانوں کو فرانس میں آج دوسرے درجے کا شہری تصور کیا جاتا ہے اس نظریہ کو فرانسیسی Liesate بھی کہتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ کے بعد میکرون اب اس ضد پر اڑ چکا ہے کہ آئندہ ماہ دسمبر 2020 میں موجودہ قوانین میں وہ مزید سخت ترامیم لائے گا جس میں مساجد کی تعمیر‘ مخصوص تعلیمی مدارس اور مساجد کی چند ایسی بعض سہولتیں سرے سے ختم کر دی جائیں گی جو پہلے موجود تھیں۔ یورپی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 1905 کے قوانین میں فرانسیسی صدر میکرون اگر ترامیم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے مسلم کش فسادات بھڑکنے کے ساتھ ہٹلر دور کی خون ریز یادیں بھی تازہ ہو سکتی ہیں۔ 
فرانس کی 6 کروڑ آبادی میں مسلمانوں کواس وقت دوسری بڑی مذہبی اقلیت کے طورپر جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ رائے شماری کی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق فرانس میں 57 لاکھ مسلمان آباد ہیں جن میں سے 30 سے 35 لاکھ کا تعلق الجزائر اور مراکش سے ہے مسلمانوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں یہاں کئی برسوں سے نسل پرستانہ اور امتیازی رویوں کا سامنا ہے جن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ 
یاد رہے کہ فرانس یورپی ممالک میں وہ پہلا ملک ہے جس نے اپریل 2011 میں مسلم خواتین کو نقاب اور برقعہ پہننے پر مکمل پابندی عائد کی تھی دو مسلم خواتین کو نقاب اوڑھنے اور برقعہ پہننے کی پاداش میں عدالت نے 120 یورو جرمانے کی سزا کا حکم بھی سنایا تھا۔ فرانس میں مساجد کی کل تعداد کے بارے میں مختلف اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں مگر مسلمانوں کی روز افزوں بڑھتی تعداد کے پیش نظر پیرس میں مساجد میں ادائیگی نماز کیلئے نمازی آج بھی شدید مشکلات سے دوچار ہیں۔ چند برس قبل نمازیوں نے پیرس کی چھوٹی شاہراہوں اور گلیوں میں نماز ادا کی تو فرانسیسی عوام نے سخت احتجاج کیا جس پر حکومت اور اس وقت کے وزیر داخلہ Claude Gueant نے پیرس کی سڑکوں پر نماز ادا کرنے پر پابندی لگاتے ہوئے ایسے افراد کو فوری گرفتار کرنے کے احکامات جاری کئے۔ 
فرانسیسی مسلمانوں کے مجموعی حالات گو آج تبدیل ہو چکے ہیں مگر نسلی تعصب آج بھی جوں کا توں ہے۔ ضرورت آج اس امرکی ہے کہ فرانس میں پھیلائے اسلامو فوبیا کے زہریلے پراپیگنڈہ کو بے نقاب کیا جائے۔ فرانسیسی صدر کو چاہئے کہ اسلام کے بارے میںوہ معلومات حاصل کریں تا کہ اسلام کی عظمت کا ادراک ہو سکے۔ 
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ مغربی دنیا میں مذہب کو وہ مقام حاصل نہیں جو دین اسلام کو دنیا میں حاصل ہے۔ مغربی سوسائٹی چونکہ اسلام کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا ہے اس لئے کسی بھی واقعہ کا وہ اسلامو فوبیا سے تعلق جوڑ کر مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیتی ہے۔ فرانس میں ہونے والے واقعہ کے بعد فرانسیسی صدر کے غیر ذمہ دارانہ بیان اور سوچ پر امت مسلمہ کو بطور احتجاج فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کرنا ہی ہو گا مگر دیکھنا اب یہ ہے کہ اسی طرز کے بائیکاٹ کی تکنیکی حیثیت کب تک قائم رہ سکتی ہے۔ بسکٹ‘ پرفیومز اور بڑے فوڈ سٹوروں کا بائیکاٹ ضرور ہونا چاہئے مگر ان اشیاء کے بائیکاٹ سے بھی آگے حکومت فرانس سے سامان حرب‘ سرمایہ کاری اور ٹیکنیکل سپورٹ کے معاہدوں سے احتجاجاً دستبردار ہونا ہو گا۔ دیکھنا اب یہ بھی ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ میں دنیا کے 57 اسلامی ممالک کیا رول ادا کرتے ہیں۔ اس موقع پر ترکی کے صدر رجب اردگان کو سلام جنہوں نے خاکوں کی حمایت کرنے پر فرانسیسی صدر میکرون کی بھرپور مذمت ہی نہیں کی اسے دماغی علاج کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے عالم اسلام کے دل جیت لئے ہیں۔ انتظار ہے اب او آئی سے متفقہ فیصلے کا؟؟؟؟؟ ورنہ عظیم فلاسفر جارج برنارڈ شا کا حضرت اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دین اسلام کے بارے میں یہ قول کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کی حیران کن استقامت کی بنا پر ہمیشہ تعظیم کی ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ واحد مذہب ہے جس میں گہرائی ہے اور یہی چیز لوگوں کیلئے دلکش ثابت ہوئی ہے میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کے بارے میں پیشین گوئی کرنا چاہتا ہوں کہ انگلستان میں Covid-19 کی شدت سے بڑھتی دوسری لہر کے پیش نظر لندن دوبارہ ایک ماہ کیلئے لاک ڈائون کر دیا گیا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن