آزادی اظہار کا مطالبہ کرنے والوں کی پشت پناہ اور چہیتی پارٹیوںنے کس قدر آزادی اظہار کاا حترام کیا،سب سے بڑی جمہوری پارٹی پی پی پی کے لیڈر بھٹو تھے جنہوںنے اقتدار میں آنے سے پہلے اعلان کیا تھا کہ حلف اٹھانے کے فوری بعد زیڈ اے سلیری کو فکس اپ کروں گا اور ایسا کردکھایا، دوسرے قدم کے طور پر بھٹو صاحب نے اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی کے ڈیکلریشن ضبط کئے ، ان کے پریس کو تالے لگائے اور ان کے مالکان اور ایڈیٹروں کو پابند سلاسل کر دیا، ان میں سے ایک گزشتہ روز رحلت فرمانے والے جلیل القدر صحافی ڈاکٹر اعجاز قریشی ، ان کے بھائی الطاف حسن قریشی اور مجیب شامی شامل تھے۔ یہ لوگ بھٹوکے مخالفین سمجھے جاتے تھے چنانچہ انہیں انتقام کی بھٹی میںجھوک دیا گیا۔ پیپلز پارٹی بائیں بازو کی سیاست کر رہی تھی، اس کے باوجود بائیں بازو کے ہفت روزہ پنجاب پہنچ کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھا گیا ، اس کے پبلشر کو بھی کال کوٹھری میں بند کیا گیا اورایک شریف النفس ایڈیٹر حسین نقی کو بھی قیدو بندمیںمبتلا کیا گیا، نوائے وقت بھٹو صاحب کا محسن تھا جس نے ایوب آمریت کے سامنے بھٹو کو اپوزیشن لیڈر کے طورپر کھڑا کیا مگر اس محسن ادارے پر بھی وار کیا گیا اورا س کے اشتہار بند کر دیئے گئے ۔ میرے مرشد مجید نظامی پر اس قدر سختیاں کی گئیں کہ ایک گورنر کالا باغ کو بھی ان سے ہمدردی پید اہو گئی ا ور انہوںنے مرشد مجید نظامی سے کہا کہ۔۔ جنا۔۔بن کے رہنا۔
اب قصہ سن لیجئے نئے دور کی مادر ملت کے والد گرامی نواز شریف کے دور کا۔انہوںنے آزادیٔ صحافت کا گلاگھونٹنے کے بجائے صحافیوں کا گلا گھونٹا، میرا گوڈا توڑا ۔ نجم سیٹھی اور حسین حقانی کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلاپھر بھی انتقام کی آگ نہیں بجھی تو اخباری کاغذ لانے والے ٹرالوں کو اغوا کر کے تھانوں میں بند کر دیا۔کئی اخبار صرف دو رقوں تک محدود ہو گئے۔ اداریئے اور کالموں کے بغیر اور کسی بھی اشتھار کے بغیر۔
اب یہ تو حال ہے ان جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی دو پارٹیوں کا ایک پی پی پی اور دوسری ن لیگ۔ ان کے متوالے اخبار نویسوں کاقصہ سنیئے،انہیں شوق ہے سچ بولنے کا ۔ اس کے لئے ان کے پاس اخبار بھی ہے ، ٹی وی کے پروگرام بھی ہیں۔پھر بھی جی نہ بھرے توبی بی سی ڈاٹ کام وائس آف امریکہ ڈاٹ کام اور ڈوئچے ویلے ڈاٹ کام بھی حاضر۔ پھر بھی سچ بولنے کاشوق پورا نہ ہو تو قسم قسم کی ویب سائیٹیں اور بھی ہیں،انہی میں سے ایک نے جنرل عاصم باجوہ کے خلاف مذموم مہم چلائی اور سی پیک پر ہتھوڑا چلا دیا، اس کی ڈور ہلانیو الے خود بھی میدان میں آگئے ، نواز شریف مریم بی بی اور ن لیگ کا ہر قسم کا لیڈر ا ور ان کی دیکھا دیکھی بلاول اور ان کے لیڈران کرام بھی سی پیک پر چڑھ دوڑے۔
آزادیٔ ا ظہار کارولا وہ بھی ڈالتے ہیں جو ایک سطر بھی سیدھی نہیں لکھ سکتے اور نہ دو فقرے توازن اور تواتر اور روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں مگر وہ مزید مال پانی کمانے کے چکر میں ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کے پاس ذاتی ہوائی جہاز ہیں۔ کسی کے پاس اڑھائی کروڑ کی مرسیڈیزیں ہیں، فارم ہائوس بھی ہیں،بیرون ملک فلیٹس بھی ہیں مگر ہوس زر کبھی مرتی نہیں۔ یہ وہ بھوک ہے جو کبھی مٹتی نہیںاس لئے انہوںنے یوٹیوب کا پلیٹ فارم سنبھال لیا ہے۔ یو ٹیوب والوں سے ڈالر کمائے جا سکتے ہیں مگرا س کے لئے کسی کوکھل کر گالیاں دینا ایک ضرورت ہے۔ پاکستان کو گالی دیں گئے تو تب بھی مال اکٹھا ہو تا ہے ا ور اگرا س کی فوج کوگالی دیں گے تو مزید ڈالر کشکول میں بھر جاتے ہیں ، آئی ایس آئی کو رگیدیں گے تو ان کے اکائونٹ ڈالروں سے لبا لب بھر جاتے ہیں۔یہ پیسہ جعلی سبسکرائیبرز کے ذریعے بھارتی بنیا دیتا ہے ا ور اسرائیلی لابی دیتی ہے تاکہ پاکستان جیسے ایٹمی اور میزائلوں سے لیس ملک کو گوربا چوف کا سوویت روس بنا دیا جائے۔ اس کے لئے ملک میں فکری انتشار پھیلاناضروری ہے، مہنگائی کارونا رو کر حکومت کو غیر مستحکم کرنا ضروری ہے اور پاکستان کے نظریئے پرو ار کرنا ضروری ہے، پاکستان اوراسکی آئی ایس آئی کو دہشت گرد ثابت کرناضروری ہے، بھارت کو علم ہو یا نہ ہو ، یہ ڈالر کمائو جتھہ جانتا ہے کہ دیپالپور میں اجمل قصاب کا گھر کس گائوں میں ہے، یہ جانتے ہیں کہ پلوامہ میں حملہ کس جیش نے کروایا،،بھارت بھی حیران ہوتا کے حملہ اس نے خود کروایا لیکن پاکستانی ڈالر کمائو جتھے کے اکائونٹوں میں پیسہ تب آئے گاا ور بارش کی طرح برسے گا جب وہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کروا دیں گے۔
اس ڈھیر سارے مذموم ایجنڈے کے لئے انہیں یو ٹیوب کا پلیٹ فارم، چاہئے جہاں ان کا پروپیگنڈہ بھی شامل ہے اورڈالر وں سے جھولی بھی بھر جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر ہرنوع کے مینڈک ٹرا رہے ہیں اور پاکستان اور اس کی فوج کی ایسی کی تیسی کر رہے ہیں، یہ ہے اصلی آزادی صحافت اور ڈالر کمانے کا سنہری اصول۔ہرکوئی بات شروع کرنے سے پہلے للچائے لہجے میں کہتا ہے کہ میری ویڈیو کا گھنٹی کا بٹن دبایئے،ا سے سبسکرائب کریں لائیک کریں اور شیئر کر یںتاکہ جتنا ان کا پروپیگنڈہ پھیلے گا تو اسی قدرڈ الروں کا ڈھیر لگتا جائے گا۔ یہ ا ٓزادی صحافت نہیں چاہتے ہیں بلکہ بھیک مانگنے کی آزادی مانگتے ہیں۔ اصل میں یہ ا نٹر نیشنل بھیک منگے ہیں۔
٭…٭…٭
آزادی ٔاظہار صرف بہانہ ، مقصد ڈالر کمانا
Nov 05, 2020