اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس منصور علی شاہ کا اپنے نوٹ میں کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو جان بوجھ کر فیض آباد دھرنے پر ٹارگٹ کیا گیا۔ فیض اباد دھرنا کیس کا فیصلہ اقتدار میں بیٹھے لوگوں کے لیے اختلاف کا سبب بن گیا۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا ہے کہ انکم قانون کے مطابق تو جسٹس عیسی کے خلاف کوئی کیس بنتا ہی نہیں تھا۔ جسٹس فائز عیسی اور انکی فیملی کی نجی مخبروں کے ذریعے نگرانی کی گئی۔ بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلہ کے 22 سال بعد بھی احترام نہیں کیا جا رہا جو کہ ادارے کیلئے نقصان دہ ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا 68 صفحات کے اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائز ریفرنس کے معاملہ پر صدر مملکت کا کردار آرٹیکل 90،91،2019 کے مطابق نہیں تھا۔ صدر مملکت کو ریفرنس کابینہ کی منظوری کے بغیر بھجوایا گیا۔ وزیر اعظم کو ریفرنس پر ایڈوائس کرنے سے قبل کابینہ سے منظوری لینا چاہیے تھی۔ وزیر اعظم کا کابینہ کے بغیر فیصلہ کرنا آئین کی روح کے منافی ہے۔ کابینہ سے منظوری بھی معاملہ پر سیر حاصل بحث اور غورو خوض کے بعد ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ریفرنس کے معاملہ پر کابینہ کو بائی پاس کیا۔ صدر مملکت نے ریفرنس کونسل کو بھجوانے کے دوران اپنا ذہین اپلائی نہیں کیا۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا ہے کہ فروغ نسیم اور شہزاد اکبر کے خلاف انکم ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی پر جوابدہ ہیں وزیر اعظم عمران خان بھی انکم ٹیکس کی خلاف ورزی پر جوابدہ ہے۔ وزیر اعظم نقائص مبنی ریفرنس بھیجنے پر بھی جوابدہ ہے۔ فردوس عاشق اعوان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بنتی ہے۔ جسٹس فائز عیسی کے خلاف الزامات بے بنیاد، بے وقعت، غلط اور بد نیتی پر مبنی ہیں۔ جسٹس فائز عیسی کی بات درست ہے کہ ریفرنس عداوت اور بغض کی وجہ سے بنایا گیا۔ جسٹس فائز عیسی نے کوئی مس کنڈکٹ نہیں کیا۔ جسٹس فائز عیسی کا اہلیہ اور بچوں کی جائیداد سے کوئی تعلق نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ 65 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ شکایت کنندہ وحید ڈوگر کو اہلیہ جسٹس قاضی فائز کا سپینش نام معلوم ہونا حیران کن ہے۔ شکایت کنندہ کا لندن جائیدادوں تک رسائی حاصل کرنا بھی حیران کن ہے۔ شہزاد اکبر نے نہیں بتایا کہ وحید ڈوگر کو ان سب کے بارے کیسے معلوم ہوا۔ وفاق کا موقف ہے کہ صحافی کو اس کا سورس بتانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ وفاق کا یہ موقف درست نہیں۔ شکایت کنندہ وحید ڈوگر نے اپنی تحقیقاتی خبر کسی اخبار میں شائع نہیں کی بلکہ وحید ڈوگر نے جج کے خلاف ایکشن کیلئے شکایت کا اندراج کرایا۔ اسلئے عدالت میں وحید ڈوگر کا سٹیٹس ایک شکایت کنندہ کا تھا ایک صحافی کا نہیں۔ اپنے نوٹ میں جسٹس منصور علی شاہ کا مزید کہنا ہے کہ ایف بی آر کو تحقیقات کی ہدایات دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ کونسل کسی بھی جج کے معاملے پر ازخود نوٹس لینے میں آ زاد ہے۔ کیس کے دوران ایف بی آر یا کونسل کی جانب کارروائی سے گریزاں ہونے کا موقف کسی فریق نے نہیں اپنایا۔ اداروں کو اختیارات نہ ہونے پر سپریم کورٹ اپنے حکم سے اختیارات نہیں دے سکتی۔ وزیراعظم نے وزیر قانون اور شہزاد اکبر سے انکے غیر قانونی اقدامات پر کچھ نہیں پوچھا۔ صدر مملکت نے بھی ایسا کوئی سوال پوچھے بغیر ہی ریفرنس پر دستخط کر دیئے۔