نوآبادیاتی نظام اور نظامِ شریعت

جب بات سسٹم کی خرابیوں کے حوالے سے سسٹم کی تبدیلی کی کی جاتی ہے تو اس پر ایک سوچ یہ بھی سامنے آتی ہے کہ کوئی سسٹم بذاتِ خود برا نہیں ہوتا بلکہ سسٹم کو چلانے والوں کی نیت اور کارکردگی سسٹم کے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہم تو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کے اسی لئے گن گاتے ہیں کہ اس میں سلطانیٔ جمہور کو بنیاد بنایا گیا ہے ، براہ راست عوام کو اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کا حق دیا گیا ہے جن کے ذریعے جمہوریت کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچنے کا تصور قائم ہوا ہے۔ اگر اب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے اور اس سسٹم میں انکے روٹی روزگار کے مسائل بتدریج بڑھتے نظر آتے ہیں تو ہمارے اس سسٹم کیلئے رطب اللسان ہونے کے باوجود عوام کے راندۂ درگاہ ہونے کاملبہ تو سسٹم پر ہی پڑے گا۔ 
مجھے آج وزیر اعظم عمران خاں کے قوم سے خطاب کے بعد تو یقین ہونے لگا ہے کہ جمہوریت کے ثمرات براہ راست عوام تک پہنچنے کا خواب اس سسٹم کو چلانے والوں کے ہاتھوں کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔ تو پھر کیوں نہ سسٹم کی تبدیلی کی سوچ کے قابلِ عمل ہونے کا بھی جائزہ لے لیا جائے اور اس پر بھی غور کر لیا جائے کہ کون سا سسٹم ہمارے لئے سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ علامہ اقبال ایک وقت جمہوری نظام کے ناقد تھے اور انہوں نے اپنے اس شعر کے ذریعے جمہوریت کا پھلکا اڑایا تھا کہ ؎
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں 
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے 
یعنی اس نظام میں فہم و فراست نہیں ، بس عددی اکثریت چلتی ہے چاہے وہ جس بھی حربے سے حاصل کر لی جائے۔ عالی دماغوں کا اس نظام سے کوئی علاقہ نہیں۔ پھر انہی اقبال نے یہ کہہ کر جمہوریت کے گن گائے کہ؎
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ 
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے ، مٹا دو 
سو جناب! ہم تو اسی سہانے تصور کے تحت ہی سلطانیٔ جمہوری کے گن گاتے ہیں کہ اس میں عوام کا مستقبل عوام کے اپنے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ مگر کیا اب تک عوام کو اپنا مستقبل خود سنوارنے کا حق مل پایا ہے اور کیا منتخب ایوانوں میں اب تک عوام کے اندر سے عوام کے حقیقی نمائندے پہنچ پائے ہیں۔ عوام تو بس آوے آوے اور جاوے جاوے کے گلے پھاڑ کر نعرے ہی لگاتے ہیں۔ وہ جن کو لانے کا تصور باندھتے ہیں ، انہی کے ہاتھوں کچلے مسلے جاتے ہیں ، انہی کے پائوں کی ٹھوکر میں آتے ہیں اور جن کے جانے کی تمنا کرتے ہیں ، ان کی دشمنی مول لے کر اپنی زندگی عذاب بنا بیٹھتے ہیں۔ ارے بھئی ، درویشی بھی عیاری ہے ، سلطانی بھی عیاری۔ 
ہماری نگاہوں میں رچنے اور دلوں میں بسنے والا جمہوری نظام جو وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کہلاتا ہے ، درحقیقت برطانوی سامراج کا مسلط کیا گیا نوآبادیاتی جمہوری نظام ہے جو صرف دولتِ مشترکہ سے وابستہ ممالک میں ہی رائج ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک پارلیمانی اور صدارتی جمہوری نظام کے تجربے کرتے رہتے ہیں اور بہتری در بہتری کی گنجائش نکالتے رہتے ہیں اور دولت مشترکہ سے وابستہ ممالک میں بھی صرف ہمارا چلن نرالا ہے۔ بے شک برطانیہ ، بھارت ، کینیڈا ، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام ہی کے گن گاتے اور اس کا میٹھا پھل کھاتے ہیں مگر ہمارا انوکھا چلن قیادتوں کیساتھ رومانٹسزم والا بن گیا ہے۔ چنانچہ ہماری قیادتیں اپنی پارٹیوں کی بھی قیادت کرتی ہیں اور حکمرانی کے مزے بھی لوٹتی ہیں۔ دولت مشترکہ کے دوسرے ممالک میں کم از کم پارٹی اور حکومتی قیادت تو الگ الگ رکھی جاتی ہے۔ اس سے حکمرانوں کا پارٹی کے اندر بھی احتساب کا عمل تو جاری رہتا ہے۔ اسکے برعکس ہمارے سسٹم میں پارٹی ہیڈنے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنا بھی اپنا حق بنا لیا ہے اور پھر پارٹی قیادت کے سحر میں مبتلا عوام اس قیادت کے اہل خانہ ، چاچوں ، ماموں اور دوسرے عزیز و اقرباء کو بھی سرآنکھوں پر بٹھانے اور ان کیلئے آوے ای آوے کے نعرے لگانے پر خوش دلی کے ساتھ خود کو تیار کر لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارا سسٹم عملاً موروثی نظام میں تبدیل ہو چکا ہے جس میں راندۂ درگاہ عوام کی حقیقی فلاح کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ قیادتوں کو سرآنکھوں پر بٹھانے کے کلچر نے ان قیادتوں میں بھی شہنشاہِ معظم آقا عالیجاہ کا خناس پیدا کر کے انکے سامنے کورنش بجا لاتے عوام کو کیڑے مکوڑے بنا دیا ہے۔ ہم عوام سسٹم کے ثمرات حاصل کرنے کی خواہش میں بس ’’کاں ڈوڈ‘‘ بن چکے ہیں جن کا اپنا کوئی چلن اور تشخص قائم ہی نہیں ہو پایا۔ بس ایک سہانا سپنا ہوتا ہے کہ فلاں قائد نے سسٹم کی تبدیلی کا نعرہ لگایا ہے تو وہ اسے عملی قالب میں بھی ڈھالے گا اور سلطانیٔ جمہور کی باگ ڈور اسکے ہاتھ میں آئیگی تو مجبور و بے بس عوام کا مقدر بھی بدل جائیگا۔ ارے صاحب سمجھ لیجئے کہ دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کُھلا۔ جن کے ساتھ آپ تبدیلی ، خوش نصیبی ، خوشحالی کی لو لگاتے ہیں وہ اپنے رہن سہن میں ، اپنی بود و باش میں ، اپنے ماحول میں ، اپنے جلوئوں میں ، اپنے نائو نوش میں اپنی خواہشات کے مطابق ضرور تبدیلی لے آتے ہیں مگر انہیں لانے والے عوام کے گھروں میں ٹمٹماتے چراغ تیل مہنگا در مہنگا ہونے کے باعث بجھنا شروع ہو جاتے ہیں۔ 
ارے جناب! آپ عوام کو تیل اور گیس مزید مہنگے ہونے کی نوید سنا کر انہیں چند اشیائے خوردنی میں چھ ماہ تک سبسڈی دینے کا لالی پاپ دے رہے ہیں اور اپنے لئے پھر آوے ای آوے کا ماحول بنانا چاہتے ہیں۔ تیل ، گیس ، بجلی اور ڈالر بتدریج مہنگے ہونے سے آپکے ریلیف پیکج کس کھاتے میں جائینگے جبکہ یہ ریلیف پیکج بھی بس دو کروڑ خاندانوں کیلئے ہیں ، باقی 20 کروڑ مقہور انسانوں کا مقدر تو خط غربت سے نیچے لڑہکتے جانا ہی ہی بن گیا ہے ۔ یہ دو کروڑ خاندان تو پہلے ہی مراعات یافتہ طبقات میں شامل ہیں۔ ’’اندھا بانٹے ریوڑیاں بس اپنوں ہی اپنوں میں‘‘ ۔ یہ محاورہ سلطانیٔ جمہور والے ہمارے سسٹم میں محض محاورہ نہیں رہا، عملی قالب میں ڈھل چکا ہے جس میں بے وسیلہ حقیر انسانوں کے لئے ہر شعبۂ زندگی میں ٹھوکریں ، گالیاں ، ذلتیں ، دربدری اور مایوسی ہی لکھی ہے اور سارا من و سلویٰ مراعات یافتہ اشرافیہ طبقات کا حق بنا دیا گیا ہے۔ محترم قیوم نظامی مجھے اکثر اکساتے رہتے ہیں کہ سسٹم کی تبدیلی کے لئے راندۂ درگاہ مقہور انسانوں کے دلوں میں حقیقی لگن پیدا کرنے کے راستے ڈھونڈے اور نکالے جائیں۔ ہم تو برطانوی کالونیل ازم کے سلطانیٔ جمہوری کی شکل میں دئیے گئے تحفے کے ساتھ بھی مخلص نہیں اور اس میں بھی خرافات درخرافات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ بات آئین و قانون کی پاسداری کی کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کیلئے آئین و قانون کو کاغذ کے ٹکڑے بنا کر ہوا میں اچھالنا بھی اپنا حق بنا لیتے ہیں۔ انتخابی طریق کار سے متعلق آئینی شقیں بھی ہمیں اپنی من مانیوں کے راستے میں رکاوٹ نظر آتی ہیں ، الیکشن کمشن اور نیب کی آئین کے ماتحت خودمختار حیثیت بھی ہمیں وارا نہیں کھاتی۔ ہمارا آئین بنیادی حقوق والی شقوں میں عوام کو صحت ، تعلیم ، روزگار کی سہولتیں فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ٹھہراتا ہے مگر حکومتی اکابرین آئین میں ودیعت کردہ عوام کے اس بنیادی حق پر بھی زچ ہوتے ہیں اور باور کراتے ہیں کہ عوام کو روزگار اور اچھی تعلیم و صحت کی سہولتیں دینا حکومت کا کام نہیں۔ پھر یہ صورتحال تو فی الواقع عوام میں سسٹم کی تبدیلی کیلئے لگن پیدا کرنے کی ہی متقاضی ہے۔ مگر عوام کو پہلے انکی قیادتوں کے سحر سے تو باہر نکالا جائے۔ اور ہم سسٹم کی تبدیلی کا کوئی تجربہ کرنے کے خواہاں ہوں تو ہمارے پاس آقائے دو جہاں ، سرورِ کائنات، رحمت اللعالمین ، خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ودیعت کردہ نظام شریعت موجود ہے۔ جو محض تصوراتی نہیں بلکہ اسلامی ، فلاحی ، جمہوری ریاست کا عملی طور پر آزمایا ہوا حقیقی سسٹم ہے۔ آپ ادھرا دھر ٹامک ٹوئیاں مارنے اور ٹھوکر کھانے کی بجائے خود کو نظام شریعت کے ساتھ باندھ لیں تو ایک سے زیادہ چادر لینے والے حاکم وقت کے احتساب کا تصور بھی حقیقت بن جائیگا۔ دریائے فرات کے کنارے کسی جانور کے بھوکا مرنے پر بھی حاکم وقت جواب دہ ٹھہرے گا اور تعزیر وحد کے زمرے میں آنیوالے جرائم پر حاکم وقت اور انکے اہل خانہ بھی مساوی طور پر سزا وار ہوں گے۔ ہمارے پاس ایسا مثالی اصلاحی اور اصلاحاتی نظام موجود ہے اور ہم خرافات کے تجربے کرنے کی ٹھانے بیٹھے ہیں۔ 
تو جناب ۔ کسی بہانے بنّے آئو۔ شریعت کو اوڑھو اور نبھائو، عذاب و ثواب جس کا مقدر ہے ، اسی کو ملے گا ، اس کیلئے بس دِلوں کو تھوڑا سا منور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن