میوزیکل چیئرکا کھیل پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ جنوبی پنجاب سے حکومتی پارٹی کے کاریگر سیاستدان ابھی سے اس تاک میں بیٹھ گئے ہیں کہ عوامی مسائل کے حل میں بری طرح سے ناکامی ‘ بد انتظامی‘ مہنگائی‘ لاقانونیت اور ہر حوالے سے حالات کی ابتری کی ذمہ داری موجودہ حکومت پر ڈال کر وقت سے پہلے ہی پارٹی چھوڑ دیں۔سابق وفاقی وزیر حاجی سکندر حیات بوسن پھر سے (ن) لیگ جوائن کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ وقت بھی کتنی ظالم چیز ہے گزشتہ انتخابات میں حاجی سکندر حیات بوسن نے کہا تھا کہ ساری پارٹیاں مجھے میرے گھر آ کر ٹکٹ دینے کیلئے تیار ہیں اور وہ خبطِ عظمت میں مبتلا رہتے ہوئے کسی بھی پارٹی کی ٹکٹ حاصل نہ کر سکے اور پھر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر انہوں نے خود کو اسمبلی سے ہی آزاد کرا لیا۔اب وہ پھر سے اپنی اس آزادی کو مسلم لیگ (ن) کی قید میں لانے کیلئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں مگر شہباز شریف کی کمٹمنٹ تو سلمان قریشی کے ساتھ ہے جو پی ٹی آئی چھوڑ کر مسلم لیگ میں آئے تھے ۔واقفانِ حال کیمطابق وفاقی وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی بھی اپنی نئی منزل کی تلاش میں سرگرداںہیں، مگر موجودہ صورتحال میں انہیں فیصلہ کرنے میںخاصی مشکل پیش آ رہی ہے۔ 1985ء سے مسلسل سیاسی میدان میں رہنے والے مخدوم شاہ محمود اس مرتبہ جتنی مشکل میں ہیں شاید ہی پہلے کبھی ہوںکیونکہ دبئی میں انکے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی مخدوم زین قریشی نے ایک محفل میں اپنی ہی حکومت کو جو آڑے ہاتھوں لیا اورکھل کر دل کی بھڑاس نکالی۔ وہ ریکارڈ ہوگئی انکی گفتگو سے تو عیاں ہو چکا ہے کہ اب پی ٹی آئی اور انکی راہیں جدا ہوں گی مگر اس جدائی کا وقت کب آئیگا یہ فی الحال کہنا مشکل ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کیلئے مشکل یہ ہے کہ ملتان میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی میں انکی دال نہیں گل سکتی۔ ویسے بھی گیلانی خاندان اور زرداری خاندان کے تعلقات اب سیاست سے بڑھ کر بہت بہت حد تک خاندانی اور دوسری نسل میں بھرپور طریقے سے داخل ہو چکے ہیں اور ملتانی مخدوم پہلی صف کے علاوہ کسی پوزیشن کو قبول نہیں کر سکتے۔ِ حالات کے مطابق مخدوم شاہ محمود کی اگلی منزل مسلم لیگ (ن) ہی ہو سکتی ہے کہ ان کے پاس واحد آپشن یہی ہے اوراس بات کا مسلم لیگ کی قیادت کو بھی مکمل ادراک ہے۔ پیپلز پارٹی کے پاس جنوبی پنجاب میں سید یوسف رضا گیلانی اور مخدوم احمد محمود جیسے ہیوی ویٹ سیاستدان موجود ہیں جن کے ہوتے ہوئے اس خطے میں شاہ محمود قریشی کبھی بھی پیپلز پارٹی کے ہیوی ویٹ نہیں بن سکتے لہٰذا پیپلز پارٹی میں شمولیت والے باب کو بند ہی سمجھا جائے ۔ رہا مسلم لیگ کا معاملہ تو یہاں ان کی دال گل سکتی ہے کہ جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ کے ہاں بہرحال گنجائش موجود ہے۔
مخدوم شاہ محمود قریشی کو یقیناً یاد ہو گا کہ ایک مرتبہ ان کے ایک دوست رکن اسمبلی نے میاں شہباز شریف سے چند شکایات کیں اور اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے انکے منہ سے یہ نکل گیا کہ وہ 5 لاکھ افراد کے نمائندے ہیں اور اس حوالے سے اپنے حلقے میں عوام کو جوابدہ ہیں۔میاں شہباز شریف نے ایک کاغذ اور پنسل ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ‘ ذرا اس پر اپنا استعفیٰ لکھ دیں اور مسلم لیگ ن کی ٹکٹ چھوڑ کر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ کر آئیں پھر آپکے کام بھی ہو جائینگے۔ میاں برادران کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے کسی اور کو بڑا ہونے ہی نہیں دیتے۔ رہا معاملہ مخدوم شاہ محمود قریشی کا تو وہ جنوبی پنجاب کی سب سے بڑی گدی کے سجادہ نشین ہونے کے ناطے اہم ہوئے بغیر رہ نہیں سکتے۔ جنوبی پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے و الے تو یہ کہہ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ کی اگلی منزل صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) ہی ہے اور پہلے ہی انتخابی معرکے میں کامیاب ہوکر خود کو ہیوی ویٹ سمجھنے والے سلمان نعیم نے تو یہ عندیہ بھی دیدیا ہے کہ شاید وہ اگلا الیکشن اپنے گروپ کے ہمراہ ( ن) لیگ کے ٹکٹ پر لڑیں، جہانگیر ترین کی لاہو رمیں ملاقاتیں اور فاتحہ خوانیاں بھی یہی اشارہ دے رہی ہیں۔ ایک بات طے ہے جہانگیر ترین گروپ اگرمسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو یہ گروپ جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کیلئے جہاں لوہے کا چنا ثابت ہوسکتا ہے وہاں مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی پی ٹی آئی کے ایام میں ہونیوالی لڑائی اسی طرح نئی سرے سے شروع ہوجائیگی پی ٹی آئی کے دور کی یہ لڑائی دونوں بڑوں کے نون لیگ میں جانے کے بعد پھر سے نہ شروع ہوجائے، مگر وہاں شاید یہ ممکن نہ ہو کہ میاں برادران کو پارٹی کو کنٹرول کرنا آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں نے جس وعدے اور جن اُمیدوں پر ووٹ دئیے تھے وہ پورے ہونا تو درکنار ان کے مسائل تو پہلے سے بھی بڑھ گئے ہیں، پھر آئندہ انتخابات میں رہی سہی کسر مہنگائی پوری کردیگی۔ ملتان کے سابق امیدوار صوبائی اسمبلی رانا اقبال سراج نے ایک مرتبہ ملتانی مخدوم کو بتایا کہ بھارت کے ایک سابق وزیر خارجہ جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا، نے اپنی وزارت کی مدت میں اپنے حلقے کے 6,600 نوجوانوں کو یورپ اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے مختلف ممالک میں ایڈجسٹ کروایا اور چند ہی سالوں میں یہ تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی کہ ہر جانے والا کسی نہ کسی کو وہاں بلواتا رہا۔آج انکے حلقے میں تعلیم اور روزگار کی بھرمار ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ملتانی مخدوم اس مشورے پر خفا ہوگئے تھے۔ویسے بھی جب تک دعاؤں اور پھونکوں سے کام چلتا ہو تو پھر ایسے تردد کی کیا ضرورت ہے ۔ رانا اقبال سراج اپنا مشورہ اپنے پاس رکھیں کہ اس خطے نے ابھی مزید کئی سال غلامی کے حصار میں رہنا ہے ۔