لاہور ادبی فورم کے زیر اہتمام امریکہ میں مقیم ممتاز شاعرسید الطاف بخاری کی کتاب رقص آورگی کی تقریب پذیرائی منعقد ہوئی جس کی نظامت چیئرمین لاہور ادبی فورم افتخار شوکت چوہدری نے کی صدارت صہیب مرغوب نے کی مہمان اعزاز ڈاکٹر سعدیہ بشیر محترمہ طاہرہ سراء اور اعجاز فقہی نے کی اظہار خیال ممتاز راشد لاہوری اسلم سعدی عارف شاد افتخار شوکت نیر صدیقی رقیہ اکبر چوہدری، پروفیسر آغا علی مزمل، عارف شادنے کیا جبکہ عارف بھنڈر، ڈاکٹر غافر شہزاد، سجاد بلوچ، عدنان خالد، محمد حمید، بلال احمد ، اسد کمال ، خالد قادری، نے خصوصی طور پر شرکت کی.افتخار شوکت چوہدری نے جب مجھے بتایا اور مدعو کیا کہ وہ محترم الطاف بخاری کے اعزاز میں ایک تقریب کا انعقاد کر رہے ہیں ۔ تو یہ بھی پتہ چلاکہ الطاف بخاری امریکہ سے تشریف لائے ہیں۔ مجھے لگا کہ تبدیلی کا سفر ابھی جاری ہے اور دیار غیر سے دھڑا دھڑ لوگ واپسی پر آمادہ ہیں کتاب ’’رقص آوارگی‘‘ کے سرسری مطالعہ نے ہی آنکھیں اور دماغ دونوں کھول دیے کہ الطاف بخاری صاحب صرف شاعر نہیں اہل بصیرت بھی ہیں اور درد دل بھی .وہ تبدیلی کے خواب کے متاثرین سے کہیں زیادہ تبدیلی کے سرکردہ ہیں۔اور تبدیلی بھی ایسی جو باد بہار کی پیامبر ہو , جو گلوں میں رنگ بھرے اور جو استعماری طاقتوں کے پنجے کاٹ ڈالے۔ یہ تقریب اس لحاظ سے بھی منفرد تھی کہ سید الطاف بخاری کی کمائی انکے ہمراہ تھی. یہ کمائی انکے دوست احباب تھے جو دوسرے شہروں سے انکی محبت سے بندھے اس تقریب میں شریک ہوئے ، محفل کے حسن انتظام کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔
افتخار شوکت چوہدری نے تن تنہا اپنے نازک کاندھوں جس خوب صورتی سے اس تقریب کو باندھے رکھا اس کی مثال نہیں ستم یہ کہ مشاعرہ نہ ہونے کے باوجود اپنے اشعار سنا گئے لیکن یہ ان کی یہ اظہاریہ کرم اور رحمت میں ڈھل گیا کیونکہ یہ اشعار نعتیہ تھے۔ بہت دل کش انداز میں کہی گئی نعت کے اشعار نے سماں باندھ دیا
ہستی کا کچھ وجود نہ تھا ،آپ کے بغیر
خوشبو سے بے خبر تھی ہوا ،آپ کے بغیر
میں آپ کے بغیر کسی کام کا نہیں
کوئی نہیں۔حضور مرا آپ کے بغیر
اعجاز فقہی صاحب تو دوست کی محبت میں آبدیدہ ہو گئے انھوں نے زندگی کے ورق پلٹ کر آس ،امید اور خواب کی ایسی کہانی سنائی جو ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے کہ نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا لیکن انھوں نے ایک جھوٹ بولا کہ مجھے اشعار کی کچھ سمجھ نہیں جب کہ سٹیج پر بیٹھے وہ مسلسل اچھے اشعار پر بآواز بلند داد دیتے رہے ۔پیاری دوست رقیہ اکبر چوہدری نے لکھا ہوا مضمون چھوڑ کر فی البدیہہ الطاف بخاری کی شاعری پر بات کی .بہت اچھا بولی لیکن مجھے اس راز کی سمجھ نہیں آسکی کہ اس نے لکھا ہوا مضمون کیوں نہیں پڑھا۔ اب تو یہ تجسس بھی عود کر آیا ہے کہ آخر اس میں لکھا کیا تھا۔
خوب صورت لہجہ کی خوب صورت پنجابی شاعرہ طاہرہ سرا نے اردو میں اظہار خیال کے ساتھ الطاف بخاری کی نظم سنائی .تقریب کی صدارت بہت اچھا لکھنے والے صحافی صہیب مرغوب صاحب نے کی۔حقیقتاً وہی اس پر وقار تقریب کی صدارت کے اہل تھے۔ صدر محترم ہونے کے باوجود وہ کھرا سچ بولتے رہے ۔یہ بھی اچھا ہوا کہ وہاں صرف وکیل تھے منصفی کی مسند خالی رہی ۔ اپنے معصوم اور سادہ لہجہ میں صہیب مرغوب نے ہنستے ہنستے سامعین کی توجہ کئی امور کی طرف توجہ دلائی۔سب سے خوب صورت مضمون اسلم سعیدی صاحب کا تھا جس کی روانی کے سامنے کوئی لفظ نہیں ٹھہر سکتا۔انھوں نے الطاف بخاری کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر عمدگی سے توجہ دلائی۔ عارف شاد صاحب نے روشنی راگنی ، زندگی کو’’رقص آوارگی‘‘ کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے بہت خوب صورت نظم میں شاعر کو خراج تحسین پیش کیا۔ نیر صدیقی نے بہت متحمل اور دانائی سے الطاف بخاری کی امید اور مثبت انداز فکر کو ایک رہنما کی صفت قرار دیا ۔ہمیں اسی انداز فکر کی ضرورت ہے .پروفیسر آغا مزمل نے فارسی حوالوں سے دل موہ لیا۔ ادارہ فکرخیال کے بانی ممتاز راشد لاہوری کے تعارف میں جب افتخار شوکت چوہدری نے بتایا کہ انھوں نے ایک سال میں سو سے زائد ادبی پروگرام منعقد کروائے ہیں تو زیادہ حیرت نہیں ہوئی .یہاں تو پروفیسر حضرات سال میں دو سو سے زائد ریسرچ پیپر لکھ لیتے ہیں اور ایچ ای سی کی عزت اور معیار پر حرف نہیں آتا۔ سید الطاف بخاری نے اپنی بات کو بڑی خوب صورتی سے ایک جملہ میں سمو دیا کہ مجھے .اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے محبت ہے۔ یہ انکی حساسیت اور مثبت انداز فکر ہے۔ الطاف بخاری نے کرونا پر نظم اور ایک غزل سنائی۔کلام شاعر بزبان شاعر نے رنگ جما دیا۔
خمار آگہی ہے یہ کہ رفعت خیال ہے
مجھے نصیب ہجر میں بھی لذت وصال ہے
مزاج شیخ منقسم ہے ،حرمت شراب میں
جو نہ ملی حرام ہے،جو مل گئی حلال ہے
پروگرام کے اختتام پر عشائیہ دیا گیا۔جس کیلئے لاہور ادبی فورم کے چیئرمین افتخار شوکت چوہدری مبارک باد کے مستحق ہیں۔