کسی بھی انسان کی اچھی شخصیت میں اسکے ماں باپ اور بڑوں کا بہت ہاتھ ہوتا ہے کہ وہ کیسے اس کی تربیت کرتے ہیں اور اسے کیسا ماحول فراہم کیا جاتا ہے؟ اگر ایک بچے کو گھر میں مناسب سہولیات اور اچھا سکول، کالج میسر ہو تو وہ ایک کامیاب انسان بن کر معاشرے کا کارگر رکن ثابت ہوتا ہے، اور وہیں اگر آپ اس پر توجہ نا دیں تو بہت کم چانس ہوتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو نکھار سکے، اور اسکے اندرصلاحیتیں ہیں انہیں دنیا پر آشکار کر سکے، اور اس سے بھی زیادہ بُرا ہوتا ہے کہ جب آپ اپنے ایک ہونہار بچے کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک کریں، اسکی تمام کاوشوں کو سراہنے کی بجائے اسے نظر انداز کریں، اس کی خوبیوں، اچھائیوں نیزہر ہنر پر اپنی آنکھیں اپنے کان بند رکھیں اور اسے یو ں محسوس کرائیں کہ جیسے وہ ہے ہی نہیں۔ ایسا ہی کچھ پنجاب کہ ایک بہت بڑے ادارے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگوئج آرٹ اینڈ کلچر جو کے پلاک یا پھر پنجابی کمپلیکس کے نام سے جانا جاتا ہے کے ساتھ بھی ہوا، یہ ادارہ جو کے خالصتاً پنجاب میں بسنے والوں کیلئے بنا، جس نے انہیں انکی شناخت دلائی،اور ابھی بھی پنجابی اور پنجاب کی دیگر مادری زبانوں کی ترویج کیلئے ہر دم کوشاں ہے۔ اس ادارے کو 2004ء میں قائم کیا گیا،اس وقت کے وزیراعلیٰ اور موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی جناب پرویز الٰہی کی خصوصی توجہ اور کوششوں کے باعث بہت جلد یہ ادارہ پنجابی زبان، ثقافت کا علمبردار بن گیا۔
مگر پھر کرنی کچھ ایسی ہوئی کہ اسکے بعد حکومت کیا بدلی، اس ادارے کے دن بدل گئے۔ ادارے کو ملنے والے زیادہ تر فنڈ بند کر دئیے گئے۔ایسے میں رونے دھونے اور دیواروں کو ٹکریں مارنے کی بجائے ادارے نے ہار ماننے سے انکار کر دیا،اور جلد ایف ایم کی نشریات اپنی مدد آپ کے تحت بحال کرائی گئیں، مگر اس دور میں ہونے والی شدید لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کبھی یہ آن ہوتا اور کبھی آف، اور پھر تبھی ایک جامع منصوبہ بندی کے ساتھ واحد آڈیٹوریم کی کمائی سے ایف ایم کی نشریات کو مکمل بحال کیا گیا۔ 2019ء میں اسے پِلاک کے بجٹ میں شامل کیا گیا، فنڈز جاری ہوئے اور باقاعدہ سٹاف بھرتی ہوا۔ حکومتی ادارہ ہونے کے باعث ہر موقع پر حکومت اور حکومتی اقدامات کی بھر پور پذیرائی کی گئی، مگر چونکہ یہ ادارہ پہلی حکومت کا بنایا ہوا تھا، سو پرویز الٰہی صاحب کے بعد کے وزیراعلیٰ نے کبھی اس ادارے میں پاوں رکھنے کی زحمت نہ کی۔ مگر ادارہ اپنے محدود وسائل میں بھی جہاں اپنی شناخت کو قائم رکھنے کی جنگ لڑ رہا تھا وہیں اس نے پنجاب کی شناخت کو زندہ رکھنے کا عزم کئے رکھا اور جب ملک دہشت گردی جیسے ناسور سے لڑ رہا تھا اور اسے ایک مثبت شناخت کی ضرورت تھی، لاہورئیے جو اپنی زندی دلی کی وجہ سے مشہور ہیں مگر حالات و واقعات کے سبب سب کھو چکے تھے تو ایسے میں اسی ادارے نے لاہور کی تاریخ کے بہت بڑے میلے منعقد کئے، جن میں جشن بہاراں، میلہ چراغاں، پنجاب کلچرل فیسٹیول اور دیگر شامل ہیں، جن میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں شہریوں نے شرکت کی۔پلاک لائبریری جو ایک کُھڈ میں واقع تھی اسے گرائونڈ فلور پر وسیع جگہ منتقل کیا اور آج وہاں بیشمار طلباء و طالبات روزانہ مطالعے کیلئے بیٹھتے ہیں ۔اسی ادارے نے سات جلدوں پر مشتمل پنجابی زبان کی دنیا کی سب سے بڑی ڈکشنری بھی بنائی، جو بلاشبہ پنجابی زبان کی بہت بڑی خدمت ہے، بین الاقوامی زبانوں میں موجود مشہور ناولوں اور دیگر کتب کا پنجابی ترجمہ کیا گیا، وہیں پنجابی صوفیاء کے کلا م کو انگریزی اور چینی زبان میں شائع کیا گیا۔ لاہور کے علاوہ راولپنڈی اور ملتان میں نئے ایف ایم اسٹیشنزکا قیام عمل میں لایا گیا جن کی نشریات اس سال شروع ہو چکی ہیں ۔آج یہ ادارہ بلاشبہ پنجاب کا حقیقی ترجمان ہے۔ پِلاک کی موجودہ ڈائریکٹر جنرل نے اپنے ٹینیور میں اپنی مدد آپ کے تحت لوک سٹوڈیو، آڈیو سٹوڈیو سمیت کئی منصوبے شروع کئے۔
کہنے والے ٹھیک ہی کہتے ہیں سالوں پڑے رہنے کے بعد تو ’’رُوڑی‘‘ کی بھی سنی جاتی ہے اور آخر کار اس سال 12ربیع الاول کے مبارک دن آخر کار وزیراعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار جو پِلاک کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین بھی ہیں 12سال بعد اس ادارے میں آ ہی گئے، جہاں انہوں نے ربیع الاول کے حوالے سے خطاطی کی ایک نمائش کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر جناب خیال احمد کاسترو اور سیکرٹری اطلاعات راجہ جہانگیر انور بھی انکے ہمراہ تھے۔ پلاک کو جلد از جلد ٹی وی چینل بنانے کی ہدایات بھی جاری کیں اور اس بارے میں اپنی خصوصی دلچسپی کا اظہار بھی کیا۔اس سلسلے میں جلد ادارے کو مزید فنڈز جاری کرنے کا وعدہ بھی کیا۔اس موقع پر انہوں نے ڈی جی پلاک ڈاکٹر صغرا صدف کے کام کو سراہا۔ امید ہے جلد ہمیں پنجاب حکومت کا ترجمان ٹی وی چینل بھی دیکھنے کو ملے گا۔