پکڑو ،مارو ،بچ نہ پائے 


ہر ملک اور معاشرے کی اپنی روایات ہوتی ہیں ہمارے پیارے پاکستان میں عدم برداشت کا پہلو نمایاں ہے، جس کی بنیادی وجہہ یہ ہے یہاں جمہوریت اور جمہوری کلچرل کو پنپنے ہی نہیں دیا گیا بلکہ جمہوریت پر بار بار وار کیئے گئے ہیں انتہائی دردناک حقیقت یہ بھی ہے کہ ماضی میں  عدلیہ کی آزادی پر بھی حرف آیا  اور بچاری جمہوریت رسوا بھی ہوتی رہی ہے اور قتل بھی ، جن ممالک میں نظریہ ضرورت جیسی بیماری نے جنم نہیں لیا وہاں مہذب معاشرے نے جنم لیا اور جڑ بھی پکڑ لی ، فرانس کے صدر جنرل ڈیگال سے کہا گیا کہ ڑیاں پال سارتر کو جیل میں ڈالیں کیونکہ وہ حکومت پر سخت تنقید کرتے ہیں ،جنرل ڈیگال نے جواب دیا کہ میں سارتر کو کیسے جیل میں ڈال سکتا ہوں کیونکہ سارتر تو فرانس ہے میں فرانس کو کیسے جیل میں ڈال سکتا ہوں ۔ مگر یہاں کیا ہوا ؟ چار اپریل 1979 میں موجودہ پاکستان کی دوبارہ تعمیر کرنے والے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو شہید کا عدالتی قتل ہوتا ہے کوئی مانے یا نہ مانیں مگر حقیقیت یہ ہے 4 اپریل 1979کو ایک نئے عہد کو پھانسی دی گئی تھی ۔ اگر چہ احتساب کی آڑ میں مقبول سیاستدانوں کو سیاست سے بیدخل کرنے کی روایت قائم ہوئی تھی اس روایت کو جنرل ضیاع نے پلے باندھ لیا ، میان نواز شریف نے بھی یہ شوق پالا اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو سیاست سے بیدخل کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی،  چوتھے فوجی آمر نے احتساب کو سیاسی انجنیئرنگ کا روپ دینے کیلئے قومی احتساب بیورو تشکیل دیا ،آصف علی زرداری کی زیر قیادت حکومت کے دوران سیاسی انجنیئرنگ کے کھیل کی حوصلہ شکنی کی گئی تاہم مسلم لیگ نواز  سیاسی احتساب کو برقرار رکھنے پر بضد رہی ۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسلم مسلم لیگ ن سیاسی احتساب سے بیزار ہوئی ہے یا نہیں کیونکہ اس کی قیادت کو ہمیشہ محفوظ راستہ ملا ہے بات دراصل ڈومیسائل کی ہے ۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ حکومت بھی جنرل ضیا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے  پرویزمشرف کو کئی میل پیچھے چھوڑ گئی  کیونکہ ان کے پاس مخالف سیاستدانوںکے سیاسی احتساب  کیلئے کوئی ریٹائرڈ جنرل کی بجائے ریٹائرڈ جج ہیں جو اس وقت صدارتی آرڈیننس کے مرہون منت ہیں رہی سہی کسر احتساب کے حوالے سے نئے صدارتی آرڈیننس نے پوری کردی ہے ۔  فارسی زبان کا زبان کا محاورہ ہے " شرم چہ سگ است کہ پیش مآ بے آید ۔ مشیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے مجھ سے نیب کے بارے سوال نہ کریں ورنہ مجھے پھرنیب کا نوٹس آ جائے  گا ۔ اس کے بعد اخلاقیات کا تقاضا تو یہ تھا کہ کہ سابق جج اپنی نوکری کو خدا حافظ کہتے کیونکہ احتساب کے حوالے سے نیا صدارتی آرڈیننس در اصل نیب کے گلے میں غلامی کا توک ہے ۔ سیاسی انجنیئرنگ کیلئے بنائے گئے قومی احتساب بیورو کی ذمہ  داری عمران خان کی سوچ کی اسیر ہے ، مگر پکڑو ،مارو ،بچ نہ پائیکی سوچ ہمیں کہاں لے جا رہی ہے ؟اس سوال کا جواب قارئین پر چھوڑتا ہوں ۔

ای پیپر دی نیشن