کتابوں کی حکومت

صاحبو!حافظ شیرازی نے ’’فراغتے وکتابے وگوشہ چمنے‘‘ کہہ کرزندگی کی اصل خوب صورتی کا راز بتا دیا ہے۔یہ سچ ہے کہ کتاب نے انسانی نسلوں کی تربیت میں بنیادی کردار اداکیاہے۔ غیرمتمدن معاشروں چھوڑ کردنیا میں ہمیشہ کتاب اور اس سے وابستہ لوگوں کی حکومت رہی ہے۔اس ہمہ جہت بدصورتیوں کے عہدمیں ہر فرد کو علمیت کا دعویٰ ہے لیکن اس علم کے حصول کے ذرائع انتہائی ناقص ہیں۔ ہم نے شعور کی آنکھ کھولی توادھرادھر کتب بینی کا ماحول دیکھا۔ سفروحضرمیں بس اسٹینڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں ژکے بک سٹالوں پرکتابیں اوررسائل و جرائد دیکھے۔ عمروعیار،ٹارزن ،شیخ چلی اور ملانصیرالدین کی کہانیوں سے مطالعے کی ابتداکی جوآگے چل کر عمران سیریز اور پھرتاریخی،جاسوسی اوررومانوی ناولوں سے ہوتی ہوئی سنجیدہ ادب تک پہنچی۔ان دنوں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ مختلف کتابوں کے موضوعات پرگفتگو کرتے تھے۔کتاب کا ارتقائی سفر مٹی کی سلوں ،پتھروں،کاغذکی چھال ،اونٹ کے شانے کی ہڈی اور ہرن کی کھال کی جھِلی سے ہوتا ہوا کاغذ کی طباعت اور اب کنڈل تک پہنچ گیاہے۔دنیا نے اس ترقی کوقبول کیاہے لیکن اپنی روایات سے انحراف کی جرأت نہیں کی۔ جدید معاشروں میں کتاب کی حیثیت آج بھی مسلمہ ہے۔ وہاںکے کتب خانے آبادہیں۔موبائل لائبیریاں کام کررہی ہیں۔اس کے برعکس ہمارے ہاں عام آدمی کتاب خریدنے کی دسترس نہیں رکھتا ،یہاں تک کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے سکالرز بھی پبلشروں سے پی ڈی ایف فائلیں طلب کرتے ہیں:
آپ بھی شرمسارہو مجھ کوبھی شرمسارکر
کتابوں کی خریداری کے حوالے سے دوست نے ایک واقعہ سنایا،ان کی کتابوں کی دکان میں ایک فیشن ایبل خاتون آئیں،انھوں نے آتے ہی بے نیازی سے دکان کا ایک چکرلگایا اور پھر کائونٹر پرآکرکہنے لگیں :’’میںآپکی دکان میں موجودسرخ جلد والی تمام کتابیں خریدنا چاہتی ہوں‘‘۔ استفسار کرنے پر موصوفہ نے بتایا کہ اصل میں انھوں نے بڑے شوق سے ایک جدید ہائوسنگ سوسائٹی میں نیا گھربنایاہے،مہمان خانے کو سرخ پردوںاور سرخ رنگ کے صوفوں سے سجایا ہے۔ ایک کونے کی الماری میں اگر سرخ جلدوالی کتابیں بھی آجائیں تو کلرسکیم بڑی خوب صورت لگے گی۔ 
 جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی کی ریل پیل میں کتاب کہیں پیچھے رہ گئی ہے،رہی سہی کسر مہنگائی نے نکال دی ہے، عام آدمی کو جہاں دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں مہنگی کتاب کی خریداری کیسے ممکن ہے۔ سوشل میڈیا کی وہیل مچھلی نے گردونواح کی ہرشے کونگل لیاہے۔ نئی نسل علم ودانش کے اصل ماخذات کو چھوڑ کر سطحی انفارمیشن کا سہارا لیتی ہے ،اسے خوش فہمی ہے کہ اس نے مختلف مختلف موضوعات پروڈیوز دیکھ کر بہت کچھ جان لیا ہے،کسی بھی سماج میں کتاب کی ناکامی پوری قوم کی شکست ہے۔کتاب کی اہمیت سے انکار آئندہ نسلوں کے مستقبل کوگروی رکھنے کے مترادف ہے۔
کتب بینی کی عادت کو حرزجاں بنانا ضروری ہے۔اس مقصد کیلئے حکومتوں سے توقعات رکھنا بے کار ہے۔عوامی سطح پر کوشش کرکے معاشرے کو مضبوط بنیادیں فراہم کی جاسکتی ہیں۔تعلیمی اداروں میں کتاب کلچرپیداکرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ والدین کو گھروںسے اس کی ابتدا کرنی چاہیے۔ کتابوں سے عشق کی اس آخری صدی میں کاغذ کی مہک اور علم کی روشنی سے استفادہ کرنا چاہئے تا کہ ہم جدید دنیا کے نفع اور نقصان کو جانچ کر اسکے صحیح اور مثبت استعمال کا ڈھنگ سیکھ لیں ۔ اسکے تقاضوں سے آشنا ہوسکیں۔
 مزید یہ کہ اہلِ علم و دانش اس سنجیدہ موضوع پر غیرجانبدارانہ تحقیق کرکے عوامی سطح پر اسکا شعور اجا گر کرسکتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے وگرنہ ہم کتاب سے انحراف اور احتراز کی صورت میں بہت کچھ کھودیں گے اور ہمیں خبر بھی نہ ہوگی کہ ہم اپنے ہاتھوں اپنی تہذیب کا گلا گھونٹ چکے ہیں ۔ہمارے ہاں کتاب کی اشاعت بہت کم تعدادمیں ہوتی ہے۔اس کا اشاعتی دائرہ مصنف،ناشر،کتب فروش اورقاری تک محدود ہے۔ نئے لکھنے والوں کیلئے کتاب شائع کروانے کی خواہش ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں کتابوں کی دکانیں ایک ایک کرکے ختم ہورہی ہیں۔جو لوگ اس کاروبار کوجاری رکھے ہوئے ہیں ان کی مستقل مزاجی پررشک آتاہے۔ ایک واقعہ شایدقارئین کی دلچسپی کا حامل ہو۔ 
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا،انھی دنوں میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنی خالہ مرحومہ کے خاندان کے ہمراہ مری گیا۔وہ ہرسال گرمیوں کی چھٹیوں میں کشمیرپوائنٹ مری میں چندماہ کیلئے کرائے پرگھر لے کرقیام کرتی تھیں۔ میں مری کے مال روڈ سے گھریلو استعمال کی اشیا خرید کر لاتا تھا۔ جی پی اوکی طرف سے آتے ہوئے ذرا پہلے ایک دو کتابوں کی دکانیں تھیں۔سڑک سے متصل دکان کے شوکیس یاڈسپلے سنٹرپرنوآمدہ کتابیں بڑی ترتیب سے سجی ہوتی تھیں۔میں روز وہاں رک کر ان کتابوں کے رنگارنگ سرورق دیکھتارہتا۔انکی قیمت پوچھتا جو ظاہر ہے کہ میری قوت خرید سے باہر ہوتی تھی۔مجھے ہر روز ایک نئی کتاب پسندآجاتی۔ایک دن خالہ نے میری نارسائی کی اس کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے ایک کتاب بطورتحفہ کتاب خریدکر مجھے دی۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے یہ خواجہ افتخار کی کتاب ’’جب امرتسر جل رہاتھا‘‘تھی۔اسکے بعد توکتابوں کی خریداری کا یہ سلسلہ چل نکلا۔میں کسی نہ کسی طرح کچھ رقم پس انداز کرکے کوئی نہ کوئی کتاب خرید لیتا۔کتابوں کی اس دکان کا بڑی بڑی مونچھوں والا عمررسیدہ مالک جومجھے معروف روسی ناول نگار میکسم گورکی سے مشابہ لگتا تھا،ایک دن مجھ سے کہنے لگا۔بچے! لگتا ہے تم بڑے ہوکر پروفیسر بنوگے۔وقت پرلگاکراڑتا رہا،پھرایک دن میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مری کے مال روڈ کے اسی بک سٹال کے باہرکھڑاتھا ۔دکان تو بدستور کتابوں ہی کی تھی لیکن اسکے جوبَن میں کافی فرق آگیاتھا۔یادوں نے ہجوم کیا۔جب دکان کے اندر داخل ہوا تو شیلف پردیگر بہت سی کتابوں کے جلو میں مجھے اپنی دوتین کتابیں بھی فروخت کیلئے رکھی نظر آئیں،فخرسے چھاتی پھول گئی۔چندہفتے پہلے اسی دکان پراتفاق سے دوبارہ جاناہوا تواخبارات ورسائل تومفقود تھے،کتابیں بھی کم کم تھیں اور ان کی جگہ اب گفٹ پیکس،لیڈیز پرس اور مصنوعی زیورات نے لے لی تھی۔
ان نینوں کے یہی بسیکھ؛وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن