’’ مَصَابیح اُلجِنان‘‘
معزز قارئین ! 8شوال 1344ہجری ، اپریل 1926ء کو نجفؔ اور حجازؔ کے بادشاہ عبدالعزیز ابنِ سعود کے حکم سے مدینہ منورہ میں واقع گورستان ’’جنّت اُلبقیع ‘‘ کے انہدام (Demolition) کا سوگ منایا جاتا ہے، اِس سوگ میں پاکستان سمیت دُنیا کے کئی اسلامی ملکوں کے علماء حصہ لیتے ہیں ۔ آغا حامد علی شاہ صاحب موسویؒ کا بھی اِس میں اہم کردار رہا ہے۔
2007ء میں تحریکِ نفاذِ فقہ جعفریہ کے سیکرٹری اطلاعات سیّد قمر حیدر زیدی ، سیّد رضا کاظمی اسلام آباد میں کئی کتابوں کے مصنف ، دانشور اور کیمیکل انجینئر ،سیّد عباس کاظمی کو ساتھ لے کر میرے گھر اسلام آباد پہنچے اور اُنہوں نے مجھے آغا حامد علی شاہ صاحب موسویؒ کا پیغام دِیا کہ ’’ اثر چوہان صاحب آپ ’’ جنّت اُلبقیع‘‘ کے بارے سیّد عباس کاظمی کی تصنیف ’’ مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ کا پیش لفظ لِکھ دیں !‘‘۔
’’مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ کے معنی ہیں (جنت کے چراغ) ۔ کچھ دِن بعد مَیں نے کتاب کا پیش لفظ لکھ کر بھجوا دِیا ۔ جولائی 2008ء میں ’’مَصَابِیح اُلجِنان‘‘ پاکستان سمیت کئی ملکوں میں منظر عام پر آگئی۔ کتاب اُردو ، عربی اور انگلش میں شائع ہُوئی تھی۔ مجھ سمیت تین دوسرے حضرات نے بھی اپنے اپنے انداز میں پیش لفظ لِکھا تھا۔
میرے پیش لفظ کے آخر میں سیّد عباس کاظمی نے لکھا تھا ’’کہ اثر چوہان صاحب کا شمار نامور صحافیوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے ، آپ ’’ مکتب ِ اہلسنت ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن، ’’اہلِ بیتؑ ‘‘ کی بہت عزّت کرتے ہیں ! ‘‘
معزز قارئین ! دراصل مَیں عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مولا علیؓ کے حوالے سے مولائی کہلانے والے علاّمہ اقبالؒ سے بہت متاثر ہُوں ۔ وہ بھی اپنی اولاد سے کہا کرتے تھے کہ ’’ ہم اہلسنت ہیں لیکن اہلِ بیتؑ کے تابعدار!‘‘ ۔
’’ جنّت اُلبقیع اور علامہ اقبال‘‘
معزز قارئین ! 1918ء میں علاّمہ اقبالؒ کی تصنیف ’’ رموزِ بے خودی ‘‘ شائع ہُوئی تو آپؒ نے سیدۃ اُلنساء ، فاطمۃ اُلزہرا ؓسے عقیدت کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا کہ …
رشتہ ٔ آئین ِ حق، زنجیر ما ست!
پاس فرمانِ جنابِ مصطفی ؐ است!
…O…
ورنہ گردِ تُربتش گردید مے!
سجدہ ہا برخاکِ او پا شِید مے!
…O…
یعنی۔ ’’شریعت حقہ کے حکام میرے پائوں کی زنجیر بنے ہُوئے ہیں ، مجھے جنابِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا پاس ہے۔ ورنہ مَیں سیّدہ فاطمہؓ کی تُربت کے گرد طواف کرتا اور اُن کی قبر پرسجدہ ریز ہوتا‘‘۔
’’ برکاتِ خواجہ غریب نواز‘‘
معزز قارئین ! امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے میں اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند حضرت معین اُلدّین چشتیؒ کی اِس رُباعی کو اکثر اپنے کالم میں شامل کرتا ہُوں۔ملاحظہ فرمائیں …
’’ شاہ ہست حُسینؓ، پادشاہ ہست حُسین ؓ!
دِیں ہست حُسینؓ ، دِیں پناہ ہست حُسین ؓ!
سَرداد ، نَداد دست، در دستِ یزید!
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہست حُسینؓ!
… O…
یعنی۔’’ ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؑ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؑ ہی ہیں (آپؑ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن خلافت کے نام پر یزید کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘ ۔معزز قارئین ! مَیں نے اُردو اور پنجابی میں پیغمبر انقلاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی کئی نُعُوت لکھیں ، حضرت علی مرتضیٰ ؓ اور دوسرے اہل بیت ؓ اور اولیائے کرامؒ کی کئی منقبتیں ۔ حضرت امام حسین ؓ کی منقبتیں بھی۔
’ ’ حُسینی براہمن ! ‘ ‘
دسمبر 2011 ء میں میرے دو لہوری ؔ دوست ماہر تعلیمات سیّد محمد یوسف جعفری اور سیکرٹری ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید میرے پاس تھے۔ جعفری صاحب نے پوچھا کہ ’’برادرم اثر چوہان! کیا آپ جانتے ہیں کہ ’’ سانحہ ٔ کربلا میں حضرت امام حسین ؓکے چند عقیدت مند ’’ہندو براہمن‘‘ بھی شہید ہُوئے تھے ؟ مَیں نے کہا کہ ’’جی ہاں ، مجھے معلوم ہے لیکن مجھے بہت دُکھ ہے کہ اُس دَور میں ہندوستان (خصوصاً پنجاب ) کا کوئی راجپوت ؔ۔ ’’شُہدائے کربلا ‘‘کے ساتھ کیوں شہید نہیں ہُوا؟‘‘
معزز قارئین!اُسی رات صبح تک مَیں نے امام عالی مقام حضرت امام حسین ؓاور شُہدائے کربلا سے متعلق منقبت لکھی جو دسمبر 2011ء میں میرے ہفت روزہ جریدہ ’’ چانن‘‘ لاہور میں شائع ہُوئی ۔
’’حُسینی راجپوت ! ‘ ‘
یکم اکتوبر 2017ء کوجب مَیں نے ’’حُسینی ؑ، براہمن ؔ، راجپوت ؔ، دوسری قوموں کے حُسینی ؔ؟‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا اور ’’جے کربل وِچ مَیں وِی ہوندا !‘‘ کے عنوان سے اپنی منقبت بھی شامل کی تو دوسرے روز سیّد عباس کاظمی نے مجھے فون پر بتایا کہ آغا سیّد حامد علی شاہ صاحب موسوی کا اپنے تمام رُفقاء کے لئے یہ فرمان ہے کہ ’’آج سے اثر چوہان صاحب کو ’’حُسینی راجپوت ‘‘ کہا جائے! ‘ ‘ ۔
معزز قارئین! میری یہ منقبت پنجاب کے ایک راجپوت کی حسرت کا بیان ہے، منقبت کا عنوان اور اُس کے چار بند ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ جے کَربَل وِچّ ، مَیں وی ، ہوندا!‘‘
… O …
تیرے، غُلاماں نال، کھلوندا!
پنج ستّ وَیری، مار دا، کوہندا!
فیر مَیں، مَوت دی، نِیندر سوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
بدفِطرت، اِبلِیس دا پَیڑا!
پوترا، بُوسفیان دا، بَھیڑا!
اپنے شعراں چ ، اونہوں بگوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
نذرانہ دیندا، جان تَے تن دا!
غازی عباس ؑ دا، بازُو بَن دا!
حُر دے، سجّے ہتّھ ، کھلوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O …
کوہندے ، اثرؔ نُوں ، یزِید دے چیلے!
اپنے لہو نال، مَردے ویلے!
مولاؑ، تیرے، پَیر میں دھوندا!
جے کَربَل وِچّ، مَیں وی ہوندا!
…O…
’’ آغا جیؒ کے جانشین اور فرزندان ! ‘‘
معزز قارئین ! علامہ آغا سیّد حسین مقدسی صاحب آغا حامد علی شاہ صاحب موسویؒ کے جانشین منتخب ہُوئے ہیں اور آغاجی دونوں قانون دان صاحبزادوں آغا سیّد محمد مرتضیٰ موسوی اور آغا سیّد علی روح اُلعباس موسوی کی خاندانی دستار بندی کے مستحق ٹھہرے ہیں ، اُن کی طرف سے بھی آغا حامد علی شاہ صاحب موسویؒ کے چہلم میں شریک ہم مسلک احباب سے کہا گیا ہے کہ ’’ انشاء اللہ ہم علاّمہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے پاکستان میں ’’شیعہ ، سُنی اتحاد ‘‘ کا ’’ مقصد ِ حیات ‘‘ جاری رکھیں گے !‘‘ ۔(ختم شد)