ہفتہ ، 9  ربیع الثانی ھ، 1444، 5  نومبر 2022ء 

ڈینگی کیخلاف اقدام نہ کرنے پر ہائیکورٹ سے رجوع۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پنجاب سمیت پورے ملک میں ڈینگی پر قابو پانے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی اقدامات نہیں کئے جارہے۔ 
تحقیق کے مطابق ڈینگی مچھر ایک صاف ستھرا مچھر ہے جو صرف صاف پانی اور صاف جگہوں پر پایا جاتا ہے لیکن یہ بھی عام مچھر کی طرح لوگوں کو بیمار کرکے خوش ہوتا ہے۔ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ یہ عام مچھر کی طرح دن رات کام نہیں کرتا بلکہ شام چھ بجے سے رات دس بجے تک صرف چار گھنٹے کی پارٹ ٹائم کام کرتا ہے۔ اسکے یہ چار گھنٹے انتہائی خوفناک ثابت ہو رہے ہیں۔لیکن جب سے اسکے منہ انسانی خون لگا ہے‘ یہ دن کی روشنی میں بھی کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ چند سال قبل اس نے صوبائی دارالحکومت میں تباہی مچا دی تھی‘ چند دنوں میں یہ سینکڑوں افراد نگل گیا تھا۔ ڈاکٹر حضرات صرف پیناڈول پر ہی اکتفا کر رہے تھے کیونکہ ابھی تک اس مچھر کے کاٹے کی نہ ویکسین تیار کی گئی اور نہ اس مچھر کی افزائش پر قابو پایا جاسکا۔ ڈینگی وائرس دور جدید کا وائرس نہیں‘ یہ دو سو سال پرانا وائرس ہے جس کا علاج آج تک دریافت نہیں کیا جا سکا۔لیکن کچھ طریقہ علاج میں اس کا بہترین علاج موجود ہے۔ ہر سال کی طرح پنجاب سمیت ڈینگی پورے ملک میں پھر سر اٹھا رہا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات ناکافی ہونے پر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑا۔ اب بتائیں عدالتوں میں پہلے ہی لاکھوں کیسز کی بھرمار ہے‘ فریادی مارے مارے پھر رہے ہیں‘ ایسے میںعدالتیں اپنے پینڈنگ کیسز کی طرف دیکھیں یا ڈینگی کیس کی طرف۔بے شک یہ حکومت کے ہی کرنے کے کام ہیں کہ وہ عوام کی جان و مال کی حفاظت کرے اور وبائی امراض کی روک تھام کیلئے پیشگی اقدامات کرے لیکن عوام کو بھی سوچنا چاہئے کہ سارے کام کرنا ریاست کی ہی ذمہ داری نہیں‘ کچھ کام وہ خود بھی کرنے کی کوشش کیا کریں۔ کیونکہ ظفرعلی خان نے یہ قوم کو نصیحت کی ہے محکموں کو نہیں کہ:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
اس لئے ڈینگی سے جنگ قوم نے مل کرہی لڑنی ہوگی۔
٭…٭…٭
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے لاہور چڑیا گھر کو عالمی سطح کا بنانے کی منظوری۔
یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ پنجاب حکومت نے سفاری پارک اور لاہور چڑیا گھر کو عالمی سطح کے میعار کی تفریح گاہ بنانے کی منظوری دیدی۔ چلیں ہم عالمی سطح کی کوئی یونیورسٹی تو قائم نہ کرسکے، اپنے چڑیا گھروں کو ہی اس سطح پر لے جائیں جہاں ٹاپ ٹین نہ سہی‘ ٹاپ ہنڈرڈ میں ہی ہمارا نام شامل ہو جائے۔ تعلیمی میعار تو ہمارا اس قدر پست ہو چکا ہے کہ دنیا کی ٹاپ یونیورسٹیوں میں ہمارا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آتا۔ جس شعبے پر ہمیں خاص توجہ دینے کی ضرورت تھی‘ اسے ہم نے 75 سال سے یکسر نظرانداز کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کا اخلاقی میعار بھی عالمی سطح پر پورا اترتا نظر نہیں آتا۔ بیرون ملک گرین پاسپورٹ دیکھتے ہی انتظامیہ الرٹ ہو جاتی ہے اور ہمارے شہری کو لائن سے الگ کر دیتی ہے۔ عام شہری کی تو بات چھوڑیں‘ ہمارے وزراء کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری قومی ایئرلائن کا شمار دنیا کی ٹاپ ترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا۔ کئی بیرونی ایئر لائنز کاعملہ ہمارے ہاں تربیت حاصل کرکے فخر محسوس کرتا تھا۔ مہمان نوازی میں بھی ہماری ایئرلائن اپنی مثال آپ تھی اسی لئے تو برطانیہ کے ایک شاہی مہمان نے ہماری ایئر لائن میں سفر کرنے کے بعد یہ خوبصورت الفاظ ادا کئے تھے ’’باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز‘‘ جو ہمارے لئے فخر کا باعث ہوا کرتے تھے۔ اب نہ وہ باکمال لوگ رہے نہ لاجواب سروس۔ بلکہ کئی ممالک میں تو ہماری ایئرلائن کو ہائی رسک قرار دیکر اسکی سروس پر ہی پابندی لگا دی گئی جو ہمارے لئے انتہائی شرمندگی کا باعث ہے۔ ہمارا دوست ملک ترکیہ دو سال کی پابندی کے بعد رواں ہفتے ہماری ایئرلائن کی سروس کھول رہا ہے۔ جب ہماری کارکردگی سے ہمارے دوست ہی نالاں ہونگے تو دوسروں سے کیا گلہ بنتا ہے۔دعا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کی کوششیں رنگ لائیں ،تعلیمی ادارے اور ایئرلائن نہ سہی‘ ہمارے چڑیا گھر ہی نام کمالیں۔ 
٭…٭…٭
سائنس دانوں نے ترجمہ کرنے والی عین تیار کرلی۔ عینک کے ساتھ مائیکرو فون اور کمپیوٹر موجود ہیں‘ مائیکرو فون الفاظ سن کر کمپیوٹر پر منتقل کریگا جبکہ کمپیوٹر ان الفاظ کا ترجمہ کرکے عینک کے شیشو ںپر بھیج دیگا۔
دور حاضر میں انسان جس قدر ترقی کر چکا ہے‘ اب مزید ترقی ہوتی کچھ دکھائی نہیں دے رہی۔ ستاروں پر کمند ڈال چکے‘ زمین سے چاند اور چاند سے مریخ تک پہنچ گئے‘ دنیا کی کوئی چیز انسان کی دسترس سے باہر نہیں رہ گئی۔ موبائل فون ایک ایسی ایجاد ہے جس کے ذریعے پوری دنیا کو انسان کی مٹھی میں سمودیا گیا ہے۔ موبائل فون کے ہوتے ہوئے اب اس عینک کی اتنی افادیت نظر نہیں آتی کیونکہ اس چھوٹی سی ڈیوائس میں اتنے سافٹ ویئر ڈال دیئے گئے ہیں کہ جو کام انسان کے بس میں نہ ہو‘ وہ اسکی مدد سے کر سکتا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کے کسی بھی کونے پر اسکی مدد سے پہنچا جا سکتا ہے۔ فلم میکنگ‘ فوٹوگرافی‘ ٹی وی چینلز‘ کیا کچھ نہیں جو اس ڈیوائس میں دستیاب نہیں۔ اس میں دنیا کی ہر زبان کا ترجمہ کرنے والا سافٹ ویئر مل جاتا ہے جس سے منٹوں سیکنڈوں میں کسی بھی زبان کا ترجمہ کیا جا سکتا ہے۔ جب گھڑیاں ایجاد نہیں ہوئی تھیں تو لوگ ستاروں اور دن کی روشنی سے وقت کا تعین کیا کرتے تھے۔ پھر زمانے نے ترقی کی تو ستاروں اور سورج کی جگہ گھڑیوں نے لے لی جس سے وقت کا اندازہ لگانا آسان ہوگیا۔ جب گھڑیاں جاپان بنایا کرتا تھا تو گھڑیاں بھی نایاب ہوا کرتی تھیں‘ ہر آدمی کی دسترس میں نہیں تھیں۔ پھر ہمارے دوست چائینہ نے گھڑیوں کا مینا بازار لگا دیا۔ دس روپے سے لے کر ہزاروں روپے کی قیمتی گھڑی بنا ڈالی اور بچے بچے کے ہاتھ پر گھڑی سجا ڈالی۔ اب گھڑیوں کا زور بھی وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ چکا ہے‘ انکی جگہ موبائل فون نے لے لی۔ اب ٹائم دیکھنا درکار ہو تو موبائل فون میں دیکھ لیا جاتا ہے۔ اس ایجاد کے مقابلے میں ہمارے کرتا دھرتائوں نے ایک ایسی چیز ایجاد کر ڈالی کہ اب وقت دیکھنے کیلئے موبائل فون کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔ اس ایجاد کے بعد نہ گھڑیوں کی ضرورت رہی ‘ نہ موبائل فون کو جیب سے نکالنے کا جھنجھٹ۔ بجلی کمپنیوں نے یہ کام نہایت آسان کردیا۔ بجلی جانے پر پتہ چل جاتا ہے کہ آٹھ بج چکے ہیں‘ گھنٹے بعد بجلی آنے پر دماغ کی گھنٹی بج اٹھتی ہے کہ نو بج چکے ہیں۔ ہر گھنٹے بعد وقت گزرنے کا احساس رہتا ہے۔جس قوم کو وقت کی قدر نہ ہو‘ وہ ہماری اس ایجاد سے فائدہ اٹھا سکتی ہے کیونکہ ہمیں بجلی کی موجودگی میںہی سارے کام نبیڑنے ہوتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن