گھرکی لڑائیوں کا آپس میں مل بیٹھ کر کوئی حل تلاش کرلینا بہترین عمل ہے ۔بدنصیب ہوتے ہیں وہ گھرانے ،وہ لوگ جو اپنے اختلافات لوگوں میں آشکار کرکے مسائل کو بڑھاوا دیتے ہیں ۔پاکستان ہمارا اپنا وطن ہے ،یہاں ملکی دفاع کے لئے بّری ، بحری اور فضائیہ کی صورت میں فوج موجودہے ۔ملک کی سیکورٹی کےلئے تقریباً 13ادارے کام کر رہے ہیں جن کی کارکردگی سب کے سامنے ہے ۔اسی طرح پاکستان مسلم لیگ ،پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف ، ایم کیو ایم ،جماعت اسلامی ، جے یو آئی سمیت سینکڑوں پارٹیاں ملک و ملت کی خدمت کے نام پر سیاست کر رہی ہیں جہاں انسان اور اداروں میں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں خامیوں سے بھی کوئی مبرا نہیں ۔گذشتہ 75برسوں میں ملک و ملت کے درد کی آڑ میں سبھی نے وطن عزیز کو لوٹا ۔اپنی اولادوں اور اپنے عزیز و اقارب کو نوازنے کا سلسلہ جاری رکھا ۔اپنی اولادوںکو بیرون ملک تعلیم دلاتے ہیں ،علاج کےلئے بھی بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔قومی سلامتی سے بڑھ کو کوئی ایشو اہم نہیں ،جس کو بنیاد بنا کر ہمیشہ جمہوریت کو چلتا کیا جاتا رہا ہے اور عساکر پاکستان ملکی دفاع کو پس پشت ڈال کر سیاسی میدان میں معرکہ ءحق و باطل میں لگ جاتے ہیں ۔سیاست دان بکاو¿ مال کی طرح اپنا مول لگواتے ہیں ۔اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیںاور اقتدار میں آکر لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں ۔
فوج کے کردار کے حوالے سے عوام و خواص میں عرصہ دراز سے تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن احترام یا خوف کی وجہ سے کوئی لب کشائی کی جرات نہیں کر سکتا ۔حکومتوں کی اکھاڑپچھاڑ کا کھیل بلاخوف و خطر جاری ہے ۔اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھنے کےلئے اداروں کی آشیر باد یا سرپرستی ضروری ہے،اس کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ۔ 4سال قبل جب تحریک انصاف کی کامیابی کےلئے باقاعدہ ایک” روڈ میپ“ تیار کیا گیا تو مقتدر قوتوں نے کمال ہوشیاری سے لوگوں کی ”برین واشنگ“ کی ، عمران خان کی مقبولیت میں اضافے کےلئے اپنے ہمنواو¿ں کو متحرک کردیا گیا۔اور عمران خان کو وزیر اعظم بنوادیا گیا۔ساتھ ہی انہیں ”کڑا احتساب “کا ٹاسک دے کرقوم کو یہ تاثر دیا گیا گیا کہ عمران خان قومی دولت لوٹنے والے چوروں ،ڈاکوو¿ں سے پیسہ واپس لائے گا ۔ملک خوشحال ہو گا ،دودھ اورشہد کی نہریں بہیں گی ۔ المیہ یہ ہے کہ احتساب کا نعرہ بھی محض الیکشن اسٹنٹ ثابت ہوا کیونکہ حقیقی احتساب کی صورت میںدیگر بہت سے پارساو¿ں کاشکنجے میں آنے کا احتمال تھا ۔ تین سال بعد اچانک حالات نے پلٹا کھایا ۔ عمران خان کو اقتدار سے الگ کرکے میاں شہباز شریف کو وزیر اعظم بنادیا گیا ۔ عمران خان نے اس سے قبل ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ انہیں اقتدار سے الگ کیا گیا تو وہ اور زیادہ خطرناک ثابت ہوںگے ۔اقتدار کی اس جنگ کے نتیجے میں فریقین میں پیدا ہونے والی غلط فہمیاں یا حقیقتیں تکلیف دہ راہوں کی سمت چل نکلیں ۔ یوں پاکستان میں وہ مرحلہ آگیا کہ جب اداروں کے خلاف مہم کو بڑھاوا دیا گیا ۔ہم آپس کی لڑائی کو قومی سطح پر لے آئے۔ساری دنیا میں ہم نے اپنی بہادر افواج کو بدنام کرنے کی مہم تیز کر دی ۔ارشد شریف سانحہ کی آڑ میں الزام تراشیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔مجبوراً ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر کو مشترکہ پریس کانفرنس کا اہتما م کرنا پڑا ۔کسی انسان کے قتل کے پیچھے بہت سے محرکات ہوتے ہیں ۔اکثر لوگ اپنے ذاتی مفاد ات کے حصول کرکے بندے کی جان لے لیتے ہیں۔سربراہ عساکر پاکستان کے خلاف جاری مہم کی وجہ سے دشمن نے خوشی کے شادیانے بجائے ، پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے ۔کیاہی اچھا ہوتا کہ ہم اپنے اختلافات مل بیٹھ کر طے کر لیتے ۔ عمران خان کو اگر مدت پوری کرنے دی جاتی تو اس میں بھی کوئی ہرج نہ تھا ۔نیب قوانین میں ترامیم کے ذریعے لوٹی گئی دولت کی واپسی کی راہیں مسدود کردی گئی ہیں بلکہ لوٹ مار کو قانونی تحفظ دے دیا گیا ہے ۔اگر ہم نے یہی کچھ کرنا تو عمران خان کو احتساب کا ٹاسک دے کر اقتدار میں لانے کی کیا ضرورت تھی ۔؟ضرورت اس امر کی ہے کہ فریقین توپوں کا رخ آمنے سامنے کرکے ایک دوسرے کو
بدنام کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کریں ۔ملکی دفاع ہمارے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ،اقتدار آنی جانی شہ ہے اور عہدوں پر بھی سدا کسی نے براجمان نہیں رہنا ۔یہ تو چل چلاو¿ ہے ۔سب فنا ہے ۔ہم سب نے اعمال کا حساب روز محشر دینا ہے ۔ہمیں آئندہ نسلوں کےلئے ایک مضبوط ،خوشحال اور باوقار پاکستان تشکیل دینے میں اپنا اپناکردار ادا کرنا ہے ،دشمن ہمیں مٹانے کا ہر حربہ استعمال کرتا ہے لیکن ہمیں اس کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے ۔ہمیں آپس کے اختلافات مل بیٹھ کر طے کرنا ہے ۔یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ،یہ ہم سب کا وطن ہے ۔ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم دھرتی ماں کے استحکام کےلئے اپنی سوچ و فکر میں مثبت تبدیلیاں لانے کی سعی کریں گے ۔اور دشمن کی کوئی چال کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔