پاک افواج کیلئے تحسین کے گلاب 



 من کی باتیں ....محمد خالد قریشی
mkhalidqureshi3000@gmail.com

سیاسی اور عسکری ماہرین ،تجزیہ نگار اور پاکستان کے تھنک تھینک نے سانحہ مشرقی پاکستان کی بڑی وجہ جو قرار دی وہ دو تھی،ایک کہ پاکستان اپنے سے دس گنا بڑے ہمسایہ ملک جو پاکستان کا ازلی دشمن تھااور ہے کے مقابلے میں ناقابل تسخیر دفاعی قوت اس کے مقابلے میں کم تھی۔1948 ء،1965 ءاور 1971 ءبھارتی جارحیت کا مقابلہ جذبہ ایمانی سے دیا،شہادت ہے مطلوب و مقصود ،پوری قوم افواج پاکستان کی پشت پر تھی،اس لئے ”سانحہ مشرقی پاکستان“جیسے حادثے کے سدباب کے لئے 1971 ءکے بعد سیاسی اور عسکری قوتوں نے پاکستان کو اپنے سے بڑے دشمن کے مقابلے کے لئے ایٹمی قوت بنانے کا فیصلہ کیا،دوسری بڑی وجہ متحدہ پاکستان کا متفقہ آئین نہ تھا۔1970 ءکے الیکشن کے بعد اسمبلی نے وزیراعظم اور اکثریتی جماعت کا فیصلہ بعد میں کرنا تھا پہلے اسمبلی ممبران کے حلف کے بعد آئین پاکستان کو منظور کرنا تھا، جس کے لیے شیخ مجیب نے چھ نکات پیش کئے تھے،جو کہ ناقابل عمل تھے۔1947 ءسے 1970 ءکے دوران ایوان اقتدار اور سیاستدانوں نے حالات کو ایسی جگہ پہنچا دیا کہ 23 سالوں میں پاکستان کو متفقہ آئین نہ دے سکے،پاکستان دو لخت ہوا۔سپہ سالار جنرل سیدعاصم منیر نے دانشوروں ،سول سوسائٹی اور نوجوانوں پر زور دیا کہ پاکستان کے بدخواہ عناصر کی جانب سے ریاستی اداروں کے خلاف کیا جانے والے پروپیگنڈا کا مقابلہ کریں اور اس کو ناکام بنائیں ،آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر گذشتہ دنوں جی ایچ کیو میں 25 ویں نیشنل سیکورٹی ورکشاپ کے شرکاءسے خطاب کر رہے تھے،انھوں نے کہا کہ پاکستان کی حفاظت اور سلامتی انتہائی اہمیت کی حامل ہے،جس پر کسی قیمت پر سمجھوتہ کرنے کی اجازت نہیں ہے،ریاست اور ادارے لازم و ملزوم ہیں،کچھ عرصے سے سیاسی جماعتوں نے اپنی حکومتی / اپوزیشن کی ناکام کارکردگی پر اداروں پر پہلی بار الزام لگانا اپنا فرض سمجھ لیا ہے۔ 75 سالہ تاریخ دیکھیں تو بھارت اور اسکا میڈیا پاکستانی سیاست اور لیڈروں کے الزامات کو اچھال رہے ہیں۔ وطن عزیزکو ایسی سیاست کی ضرورت نہیں کہ اپنی سیاست ،ذات اور انا پرستی کی وجہ سے ریاست کو کمزور کرنا شروع کر دیا گیا،نوجوان نسل چونکہ سوشل میڈیا پر بے بنیاد پروپیگنڈا کی وجہ سے بغیر تحقیق کے اس میں شریک ہو گئے۔پاکستان کے میڈیا اور اینکر پرسن کو کم از کم ملکی سا لمیت اور بقاءکو مقدم رکھنا ہو گا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں شائد عوام الناس سے امتیازی سلوک ہو رہا ہے حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے۔پاکستان کے سلامتی کے ضامن ادارے اس پر غور کریں کہ ایسے کیا سیاسی اور حکومتی حالات تھے کہ قوم کو تقسیم کر دیا گیا،ایسی محاذ آرائی کو ختم کرنا ہوگا۔پاکستان میں میڈیا کو بھی ذمہ داری کا ثبوت دینا ہو گا،بعض اینکر پرسن ایسے دعوے اور پروگرام کرتے ہیں کہ عوام بھی حیران و پریشان ہیں،ایسی اجازت کون اور کیوں دیتا ہے،پاکستان کی نظریاتی احساس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو سکتی،افواج پاکستان کی عزت ،حرمت ،وقارکوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔افواج پاکستان کی قربانیوں کو صرف چند مخصوص دنوں میں یاد کرتے ہیں،یوم شہداءصرف سال میں ایک دفعہ یاد کرتے ہیں،”افواج پاکستان“کی لازوال قربانیوں کو بیان کرنا صرف آئی ایس پی آر کا کام ہے؟،عوام الناس ،دانشور،صحافی اور اینکر پرسن کیوں نہیں بیان کرتے۔چند حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں،محب وطن پاکستانی کے طور پر اس پر غور ضرور کریں،نیشنل سیکورٹی ورکشاپ میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر خطاب کا مقصد بھی یہی تھا کہ ملک کی سلامتی کے اداروں پر کوئی آنچ نہ آئے۔عوام اور خصوصاً نوجوانوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،پاک فوج کے افسران کی پر تعیش طرز زندگی کے بارے میں بہت سی خرافات اور بے بنیاد قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں،یہ غلط فہمیاں اور جھوٹ اس پروپیگنڈے کا حصہ ہیں،جس کا مقصد پاکستانی عوام کے ذہنوں کو آلودہ کرنا ہے تا کہ فوج اور عوام کے درمیان دراڑ ڈالی جا سکے، ان الزامات اور جھوٹے پروپیگنڈے کا سدباب کرنے کے لئے ان کے متعلق ابہام ختم کرنا ضروری ہے ۔1پاک فوج میں 10% سے ذیادہ افسران برگیڈیئر رینک تک نہیں پہنچتے ،یعنی گریڈ -20 جب کہ اس کے مقابلے میں سول اداروں کے تقریباً 70% کے قریب افسران گریڈ 20میں پہنچ کر ریٹائرڈ ہوتے ہیں۔2پاک فوج میں 2% افسران میجر جنرل کے رینک تک پہنچ پاتے ہیں،اس سے مزید کم یعنی 0.4% لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک پہنچ پاتے ہیں،یہ ترقی صرف پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے بناءپر حاصل کرتے ہیں۔اس ترقی کا ان کے خاندانی پس منظر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا،جیسا کہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک جنرل کا بیٹا ہی جنرل بن سکتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی جرنیل کا بیٹا آج تک پاکستا ن میں آرمی چیف نہیں بن سکا،پرویز مشرف ،جنرل جہانگیر کرامت،جنرل وحید کاکڑ،جنرل اسلم بیگ اور جنرل ضیاءالحق جیسے آرمی چیف بنے ،ان کے والدین کا عسکری شعبے سے کوئی تعلق نہ تھا.3تاثر یہ ہے کہ شائد آرمی آفسر پانی ،بجلی اور گیس کی کم قیمت ادا کرتے ہیں،بغیر کسی خصوصی رعایت کے ادا کرتے ہیں.4فوج کے تمام افسران سے انکم ٹیکس کی ادائیگی تنخواہ سے کٹوتی میں کی جاتی ہے جو کہ ایک سال میں دو ماہ کی تنخواہ کے برابر ہے5 فوج آفیسر کو سرکاری رہائش الاٹ ہو جائے تو تنخواہ میں مکان کا کرایہ نہیں ملتا۔6برگیڈیئر سے کم رینک کا کوئی آفیسر سرکاری گاڑی رکھنے کا مجاز نہیں،سرکاری گاڑی ذاتی کام کے لئے منع ہے 7فوجی آفیسران ابتدائی ملازمت کے دوران آرمی ہاﺅسنگ سکیم کے ممبران بن جاتے ہیں،سروس کے دوران تنخواہ سے سکیم کے مطابق ماہانہ رقم کاٹی جاتی ہے،ان کی ریٹائرمنٹ پر تین کمروں کا فلیٹ اپنی پنشن کا بڑا حصہ ادا کر کے الاٹ ہوتا ہے۔8دی ایچ اے سکیم میں پلاٹ بطور سروس بینیفٹ صرف اچھے ڈسپلن آفیسرز ،JOCs اور شہداءکے خاندان کو الاٹ ہوتے ہیں،جس کی ادائیگی اقساط میں ہوتی ہے،صرف ترقیاتی اخراجات معاف ہوتے ہیں۔9فوجی آفیسران کے بارے میں ایک غلط فہمی پھیلائی جاتی ہے کہ صرف ایف اے پاس ہوتے ہیں، حالانکہ فوجی آفیسران کے لئے گریجوایشن لازمی ہے،ملٹری اکیڈمی سے پاس آﺅٹ ہونے پر دوسال کے اند گریجوایشن بی ایس کی ڈگری حاصل کر لیتے ہیں۔: 10ایک بہت منفی تاثر سویلین کے حوالے سے پیدا کیا گیا”بلڈی سویلین “حالانکہ کسی آرمی کے جوان اور آفیسر کو ایسی جرات نہیں ہوتی کہ وہ ایسا کہے،اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ 90% فوج سے تعلق رکھنے والوں کی فیملی،خاندان اور والدین سب ”سویلین“ہوتے ہیں.11ہر بڑے ادارے کی طرح فوج میں بھی ایسے لوگ آتے ہیں جن کا ذاتی کردار اور فعل ادارے کے لئے باعث تشویش ہوتا ہے،فوج کے اندر جزا و سزا کا عمل ہوتا ہے،مگر اس کی تشہیر نہیں کی جاتی۔12وطن عزیز جس صورتحال کا شکار ہو،بجلی،گیس کا بحران ہو یا کرونا کے باعث لاک ڈاﺅن ،فوجی چھاﺅنیاں بھی اس کا شکار ہوتی ہیں:13فوجی چھاﺅنیوں ،کینٹ ایریا میں صفائی،قانون کی علمداری ان کی اعلیٰ تنظیم اور تربیت کی وجہ سے ہوتی ہے،اپنے محصوص اور محدود فنڈز سے ترقیاتی کام کرتے ہیں.14 منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ ملی بجٹ کا بڑا حصہ دفاع/ فوج کے لئے جاتا ہے،حالانکہ تمام بجٹ کا صرف 20% دفاع پاکستان پر خرچ ہوتا ہے،افواج پر اخراجات دینا دیگر ممالک سے کم ہے۔15افواج پاکستان اور عوام پاکستان ایک جسم و جان ہیں،ان کا اعتماد ہی کامیابی کی بنیاد ہے،تمام شعبہ زندگی مل کر کام کریں ،پاکستان کامیاب ہوگا۔کوئی فوج عوام کی حمایت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔فوج پر تنقید کرنا ایک فیشن بن گیا ہے مگر ایسا کرنا صرف اپنے وطن کی سلامتی سے کھیلنا ہے۔16 :ایسے عناصر ،جماعت اور گروہ کے عظائم سے آگاہ رہیں،جو فوج اور عوام میں تقسیم ڈالنا چاہتے ہیں،پاکستان آج اپنے سے دس گنا بڑے دشمن ملک بھارت کے سامنے کھڑا ہے اور مضبوطی کے ساتھ موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج ہیں۔
”افواج پاکستان کو خراج تحسین“
ہم سرد ہوا کے باسی ہیں
شہید بھی ہیں غازی بھی ہیں
ہم کرنل ،کیپٹن ،میجر بھی
حوالدار،نائیک ،سپاہی بھی
ہم چھوڑ گئے دم توڑ گئے
ہم برف کی چادر اوڑھ گئے
بابا کی آنکھ کے تارے بھی
ہم ماں کے راج دلارے بھی
ہم بیٹے ،باپ اور بھائی بھی
ہم منا،انکل ،ماہی بھی
ہم دور بھی ہیں مجبور بھی ہیں
اور زخموں سے ہم چُور بھی ہیں
جب برف سے اٹھتے جائیں گے
ہم جلدی لوٹ کہ آئیں گے
”شہداءپاک فوج زندہ باد“

ای پیپر دی نیشن