فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معینی
ترقی و کامیابی کا راز حصول علم میں پوشیدہ ہے ۔ترقی اور علم لازم و ملزوم ہیں۔تاریخ کا مطالعہ تو یہی گواہی دیتا ہے کہ جس قوم نے علم کا دامن پکڑ لیاوہ کامیابی کے زینے چڑھتی گئی اور دنیا میں باوقار زندگی گزاری ۔آج بھی دنیا بھر پر نظر دوڑائیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک میں شرح تعلیم سو فی صد تک پہنچ چکی ہے ۔ترقی کے ساتھ معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لیے بھی ضروری ہے کہ جہالت کے اندھیرے کو دور کیا جائے، با مقصد تعلیم کو فروغ دیا جائے اور علم کی بہت سی شمعیں روشن کی جائیں۔کیونکہ صرف تعلیم یافتہ افراد ہی ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔ملک پاکستان کا نوجوان ذہین بھی ہے اور باصلاحیت بھی۔کمی اگر ہے تو اس کے لیے بامقصد تعلیم کی ، صحیح تربیت کی اورمناسب مواقع کی۔یہ تمام چیزیں نہ ہونا ہی ملک عزیز کی ترقی معکوس کا سببب ہے۔
دین اسلام فروغ علم کا سب سے بڑا علم بردار اور داعی ہے ۔اسلام نے علم کی اہمیت ،فضیلت،ترغیب اور تحصیل پر جتنا زور دیا اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔قرآن حکیم کی بہت سی آیا ت مبارکہ اور سینکڑوں احادیث پاک میں حصول علم پر زور دیا گیا ۔یہاں تک ہر مرد وزن پر تعلیم حاصل کرنا لازم قرار دے دیا گیا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مسلمانوں نے دنیا میں ترقی اور سر بلندی علم کی وجہ سے ہی حاصل کی اور جب سے علم سے منہ پھیرے ہوئے ہیں خجل و خوار ہو رہے ہیں۔
ملک کی آبادی کا بڑا حصہ ان پڑھ ہے۔شرح خواندگی کی صورت حال بڑی افسوس ناک ہے ۔شرح خواندگی بہت سے جنوبی ایشیائی ممالک سے بھی کم ہے۔آج کے اس تیز رفتار سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں جب دنیا چاند سے بھی آگے نکل چکی ہے ،دو کروڑ تیس لاکھ سے سے زیادہ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔یعنی آدھے بچے تعلیم سے محروم رہیں گے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکیں گے ۔اور جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بھی کوئی بڑا معرکہ سر انجام نہیں دے سکیں گے کیو نکہ نصاب تعلیم با مقصدہے اور نہ ہی نظام تعلیم با مقصد۔ہمارے پالیسی سازوں کے کانوں کے قریب کوئی جوں وغیرہ نہیں رینگ رہی اس لیے تعلیم کی اہمیت کو نہیں سمجھ رہے ۔کس باپ کی خواہش ہے کہ اس کا بچہ ان پڑھ رہ جائے لیکن ملک کے بد ترین معاشی حالات نے لوگوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے ۔کتنی تلخ حقیقت ہے کہ ملک کا آدھے سے زیادہ مستقبل علم سے دور رہ جائے گا۔ان حالات میں ملک کی ترقی خواب کے سوا کچھ نہیں۔
اسلامی معاشرہ میں خانقاہی نظام کا ایک مربوط نظام صدیوں سے قائم ہے ۔یہ نظام فروغ تعلیم میںاہم کردار ادا کرتا رہا ہے لیکن افسوس آج کے دور میں جب تعلیم کے فروغ کی اشد ضرورت ہے یہ نظام موثرکردار ادا نہیں کر رہا۔بقول علامہ ڈاکٹر محمد اقبا ل رحمتہ اللہ علیہ
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غمناک
نہ زندگی ،نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ
خانقاہی نظام کے زیر اہتمام معیاری مدارس کا قیام فروغ تعلیم و تربیت کے لیے بہت ضروری ہیں جہاں کمزور معیشت والے افراد اپنے بچوں کو تعلم دلواسکیں۔
گنتی کی چند خانقاہوں پر قائم دینی مدارس احسن انداز میں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے رہی ہیں۔ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور کی ایک بستی بیربل شریف میں خانقاہ مرتضوی دو صدیوں سے علم و عرفاں کے متلاشیوں کی علمی پیاس بجھانے میں بھر پور کردار ادا کر رہی ہے۔اس خانقاہ کے بانی جنید وقت حضرت اعلیٰ حافظ خواجہ غلام مرتضیٰ رحمتہ اللہ علیہ صاحب علم و فضل شخصیت تھے ۔آپ نے بیس سال کی عمر میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور نصف صدی تک علم کی شمع فروزاں کیے رکھی ۔قیام پاکستان سے قبل ہندوستان کے بڑے شہروں سے طلبا ءکا اس چھوٹے سے دیہات میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سفر کرنا اس عظیم ادارہ کے تعلیمی معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔پروفیسر صاحبزادہ محبوب حسین صاحب اس عظیم علمی و روحانی خانوادہ کے فرد فرید ہیں۔پروفیسر صاحب نے اس قدیم علمی مرکز کو جدید خطوط پر استوار کیا جو ادارہ ”معین الاسلام“ کی صورت میں دینی و عصری علوم کا عمدہ امتزاج پیش کر رہا ہے۔پروفیسر صاحب اعلیٰ تعلیم یافتہ مستند ماہر تعلیم ہیں اور ملک عزیز کے بڑے تعلیمی اداروںمیں درس و تدریس کا وسیع تجر بہ رکھتے ہیں۔آپ نے دور حاضر کی تعلیمی و تربیتی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک منفرد نصاب پیش کیا ۔اس نصاب کے تحت دینی علوم حفظ ،تجوید و قرآت،درس نظامی کے ساتھ عصری علوم پرائمری، مڈل ،ایف اے، بی اے،ایم اے کا نصاب مکمل کروایا جاتا ہے۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے بھی معاونت اور رہنمائی کی سہولت میسر ہے۔اس منفرد نظام تعلیم سے فارغ التحصیل افراد معاشرہ کے مفید شہری بن کر نہ صرف ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ دین کی ترویج و اشاعت میںبھی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کر رہے ہیں۔ادارہ کے سات کیمپسسز میں تعلیمی سرگرمیاں جاری ہیںجبکہ دو کیمپس تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ادارہ میں تعلیم، قیام و طعام مفت ہے۔مستحق طلبا ءکی تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے وظائف بھی دیے جاتے۔ دوران قیام و تعلیم طلبا ءکی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباءکی شخصیت سازی و کردار سازی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ تدریس کامعیار اتنا بہترین ہے کہ ہر سال ادارہ کے طلباءیونیورسٹی اور تعلیمی بورڈ میںپوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی جدید سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔مملکت خداداد کی تمام خانقاہوں پر اگر ایسے معیاری تعلیمی ادارے قائم ہو جائیں تو شرح خواندگی میں اضافہ ممکن ہے ۔لبرلز حضرات سے بھی درخواست ہے کے دینی اداروں کے خلاف منفی پراپگنڈہ بند کریں کیونکہ
جنہیں حقیر سمجھ کر بجھا دیا تم نے
یہی چرغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہو گی
Nov 05, 2023