الیکشن ایک ساتھ، آئینی حدود میں مداخلت کے نتائج سنگین: سپریم کورٹ

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے 90 روز میں انتخابات کیس کا دس صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ تحریر کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی ادارہ دوسرے کی آئینی حدود میں مداخلت کرے تو نتائج سنگین ہونگے۔ صدر اور الیکشن کمشن کا تنازعہ غیر ضروری طور پر سپریم کورٹ لایا گیا۔ قومی اسمبلی وزیراعظم کی ایڈوائس پر 9 اگست کو تحلیل ہوئی۔ صدر نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کے لیے تاریخ دینے کے پابند تھے، عام انتخابات کا انعقاد نوے روز میں اس لیے نہ ہو سکا کہ ساتویں مردم شماری نوٹیفائی ہو چکی تھی۔ علاوہ ازیں آئین کے تحت نئے انتخابات سے پہلے ساتویں مردم شماری کا ہونا ضروری تھا، الیکشن کمشن نے نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا۔ آرٹیکل 224(2) کے تحت آئینی تقاضا ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات نوے روز میں ہوں۔ چھٹی مردم شماری کی منظوری میں 6 سال لگ گئے جس کے سبب ساتویں مردم شماری اور حلقہ بندیوں میں تاخیر ہوئی تمام وکلا نے عدالت کو بتایا کہ نوے روز میں انتخابات ممکن نہیں آگاہ کیا گیا کہ الیکشن کمشن نے صدر کے خط کا کوئی جواب نہیں دیا۔ صدر کے خط اور الیکشن کمشن کے مﺅقف سے عدالت مشکل میں آ گئی آئین اور قانون میں عدالت کا الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ صدر نے آرٹیکل 186 کے تحت عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ صدر اور الیکشن کمشن سمیت سب کو وہی کرنا چاہیے جو آئین کی منشا ہے۔ سپریم کورٹ کے حکمنامہ کے مطابق آئین پر عمل کرنا کوئی آپشن نہیں بلکہ ذمہ داری ہے۔ پورا ملک انتخابات کی تاریخ کیلئے تشویش میں مبتلا تھا، کچھ لوگوں کو خدشہ تھا شاید انتخابات ہونگے ہی نہیں، آئین کے تحت سپریم کورٹ ایسا اختیار استعمال نہیں کر سکتی جو اسے حاصل نہ ہو‘ آئینی عہدہ جتنا بڑا ہوگا ذمہ داری بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ آئین پر عمل کرنا ہر شہری کا بنیادی فرض ہے۔ صدر، چیف الیکشن کمشنر اور ارکان آئین کے تحت لیے گئے حلف کے پابند ہیں۔ ماضی قریب میں انہی صدر مملکت نے اسمبلی اس وقت تحلیل کی جب وزیراعظم عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے۔ آئین واضح ہے کہ عدم اعتماد کی صورت میں اسمبلی تحلیل نہیں ہو سکتی۔ اسمبلی تحلیل سے تنازعہ سپریم کورٹ آیا اور عدالت کو اس کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ہر آئینی ادارہ آئین پر عملدرآمد کرنے کا پابند ہے وقت آ گیا ہے کہ تمام ادارے سمجھداری کا مظاہرہ کریں۔ عوام کا حق ہے کہ انتخابات ہوں اور عدالت کو الیکشن یقینی بنانے کا اعزاز حاصل ہوا، انتخابات کی مقررہ تاریخ 8 فروری پر تمام فریقین متفق ہیں، صدر سے اتفاق کے بعد انتخابات کی تاریخ کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا۔ حکمنامہ کے مطابق نوٹی فکیشن کے مطابق قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 8 فروری کو ہونگے، وفاقی و صوبائی حکومتیں یقینی بنائیں کہ انتخابات کا عمل 8 فروری کو بغیر کسی رکاوٹ مکمل ہو۔ آئین پاکستان کو پچاس سال ہو چکے ہیں کسی آئینی ادارے یا عہدیدار کے پاس آئین سے آشنا نہ ہونے کا کوئی عذر نہیں ہے آج سے پندرہ سال پہلے تین نومبر کو آئین پر شب خون مارا گیا تھا۔ آئین پر شب خون مارنے کے ہمیشہ دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ آئین پر شب خون مارنے کی تاریخ سے سیکھنا ہوگا، آئین پر شب خون مارنے سے عوام اور ملکی جغرافیائی حدود پر منفی اثرات پڑے وقت آگیا ہے کہ عدالتیں غیر ضروری طور پر ایسے تنازعات کا حصہ نہ بنیں کہ ان پر وقت ضائع ہو۔ تحریری فیصلے میں میڈیا کے حوالے سے بھی دو پیراگراف لکھے گئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آئینی آزادی کے غلط استعمال کا مقصد جمہوریت کو نیچا دکھانا ہے۔ میڈیا کا بہت اہم کردار ہے، آئین پاکستان نے آرٹیکل 19 میں اظہار رائے کی آزادی دے رکھی ہے۔ اظہار رائے کی آئینی آزادی کو کچھ لوگ جھوٹا بیانیہ بنانے اور غلط معلومات پھیلانے کیلئے بطور لائسنس استعمال کرتے ہیں۔ پیمرا آئینی خلاف ورزی پر پابندی عائد کرتا ہے۔ جمہوریت پر اعتماد کی کمی سے عوام کی شمولیت کے ساتھ ساتھ ووٹر ٹرن آو¿ٹ کم ہوتا ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کی ایک تحقیق کے مطابق غلط معلومات پھیلانے سے جمہوریت متاثر ہوتی ہے۔ یورپین پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے سوچنے کی آزادی، پرائیویسی کا حق کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی تحقیق کے مطابق غلط معلومات سے ناصرف جمہوری اداروں پر عدم اعتماد پیدا ہوتا ہے بلکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات پر بھی حرف آتا ہے غلط معلومات کی وجہ سے ڈیجیٹل وائلنس اور جبر میں اضافہ ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ سچائی کے ساتھ پیشہ ورانہ طور پر ذمہ داریاں ادا کرنے والے صحافیوں کی ستائش کرتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...